سورۃ الفاتحہ
رسول اللہ ﷺنے فرمایا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے اور میرے بندے کے درمیان صلوۃ ( سورۃ فاتحہ ) کو آدھا آدھا تقسیم کر دیا گیا ہے، اور میرے بندہ کے لیے ہر وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے۔
اور جب بندہ کہتا ہے الحمد لله رب العلمین: تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے بندہ نے میری حمد کی۔
اور جب وہ کہتا ہے : الرحمن الرحیم: تو خدا فرماتا ہے، میرے بندہ نے میری ثناء کی۔
اور جب وہ کہتا ہے : مالك يوم الدین تو اللہ فرماتا ہے، میرے بندہ نے میری تعظیم کی، اور ایک بار فرمایا، میرے بندہ نے (خود) کو میرے سپرد کر دیا۔
اور جب وہ کہتا ہے : اياك نعبد واياك نستعين: تو اللہ فرماتا ہے، یہ میرے اور میرے بندے کا درمیانی معاملہ ہے میرا بندہ جو سوال کرے گا، وہ اس کو ملے گا۔
اور جب وہ کہتا ہے اهدنا الصراط المستقیم ،صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالین تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندے کیلئے ہے اور یہ جو کچھ طلب کرے گا وہ اسے دیا جائے گا۔
(صحیح مسلم شریف #395)
اس سورۃ میں سات آیات، ستائیس کلمات، ایک سو چالیس حروف ہیں۔
کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں۔
ایک بار اس سورۃ کو پڑھنے والے کو باقی فضائل کے علاوہ 1400 نیکیوں کا اجر ملے گا۔
فضائلِ سورۃ الفاتحہ
حضور ﷺ نے فرمایا
“توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل کوئی سورت نہ نازل ہوئی۔” (ترمذی)
ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہو کر حضور ﷺ پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے — ایک سورۃ الفاتحہ، دوسرا سورۃ البقرۃ کی آخری آیتیں۔ (مسلم شریف)
سورۃ الفاتحہ میں ہر مرض (جسمانی و روحانی) کے لئے شفا ہے۔
سورۃ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ (سنن دارمی)
نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا
“میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأ کہا جاتا ہے۔”
ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی، عرض کیا
“جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں۔”
اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا
فرمایئے — بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات میں ہے کہ پہلے سورۃ اِقْرَأ نازل ہوئی۔
سورۃ الفاتحہ کے نام
سورۃ فاتحہ کے متعدد نام ہیں
فاتحۃ الکتاب، اُمُّ القرآن، سورۃ الکنز، کافیۃ، وافیۃ، شافیۃ، شفا، سبع مثانی، نور، رقیۃ، سورۃ الحمد، تعلیم المسئلہ، سورۃ المناجاۃ، سورۃ التفویض، سورۃ السوال، اُمُّ الکتاب، فاتحۃ القرآن، سورۃ الصلوۃ، سورۃ الدعا۔
طریقہ دعا (سورۃ الفاتحہ سے سیکھا ہوا)
یہ سورۃ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے شروع ہوتی ہے
پھر بندہ کی عبادت کا ذکر آتا ہے
پھر اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی دعا ہے۔
لہذا دعا کرنے کا یہی طریقہ کار ہے کہ پہلے حمد و ثناء کی جائے، پھر اپنی دعا کی جائے۔
اِھْدِنَا الصِّراط الَمُستَقِیْمَ سے پہلے حمد، پھر عبادت، اس کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی کہ بندے کو عبادت کے بعد ہی مشغولِ دعا ہونا چاہئے۔
حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد ہی دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے۔
صراطِ مستقیم سے مراد
اسلام یا قرآن یا خُلقِ نبی کریم ﷺ یا حضور کے آل و اصحاب ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراطِ مستقیم طریقِ اہلِ سنت ہے جو اہلِ بیت و اصحاب اور سنّت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء، نیک لوگ، طریقِ مسلمین ہے۔
ترمذی شریف کی روایت #2954 کے مطابق
“مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ” سے یہود اور “ضَآلِّیْنَ” سے نصاریٰ مراد ہیں۔
فقہی مسائلِ سورۃ الفاتحہ
مسئلہ 1
نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے، امام و تنہا کے لئے حقیقتاً اپنی زبان سے، اور مقتدی کے لئے امام کی زبان سے۔
صحیح حدیث میں ہے
“قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ’ قِرَاء ۃٌ” (سنن ابن ماجہ #850)
یعنی امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے۔
قرآنِ پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرأت سننے کا حکم دیا ہے
“اِذا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ’ وَ اَنْصِتُوْا”
مسلم شریف حدیث #404
“اِذَا قَرَأ فَاَنْصِتُوْا” — جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو۔
مسئلہ 2
“بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم” قرآنِ پاک کی آیت ہے مگر سورۃ فاتحہ یا کسی اور سورہ کا جزو نہیں۔
اسی لئے نماز میں اونچی آواز کے ساتھ نہ پڑھی جائے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ، حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نماز “الْحَمدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ” سے شروع فرماتے تھے۔
مسئلہ 3
کبھی حمد واجب ہوتی ہے (جیسے خطبۂ جمعہ میں)
کبھی مستحب (جیسے خطبۂ نکاح و دعا میں)
کبھی سنتِ مؤکدہ (جیسے چھینک آنے کے بعد)۔
مسئلہ 4
نمازِ جنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورۃ فاتحہ بہ نیتِ دعا پڑھنا جائز ہے، بہ نیتِ قرأت جائز نہیں۔ (عالمگیری)
مسئلہ 5
فاتحہ کے بعد “آمین” کہنا سنت ہے، نماز میں بھی اور باہر بھی۔
“آمِیْن” کے معنی ہیں: “ایسا ہی کر” یا “قبول فرما”۔
مسئلہ 6
احناف کے مطابق نماز میں “آمین” آہستہ کہی جائے۔
(آمین، کلمہ قرآن نہیں ہے۔)
مسئلہ 7
جو شخص “ضاد” کی جگہ “ظا” پڑھے (ولا الظالین) اس کی امامت جائز نہیں۔ (محیطِ برہانی)
مسئلہ 8
احناف اور مالکیوں کے نزدیک بسم اللہ شریف سورۃ فاتحہ کا حصہ نہیں
جبکہ شوافع اور حنبلیوں کے نزدیک بسم اللہ شریف سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے۔
لہذا احناف نماز میں بسم اللہ شریف کو اونچی آواز سے نہیں پڑھتے۔
مسئلہ 9
تلاوت سے پہلے “اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیم” پڑھنا سنت ہے
اور نماز میں بھی امام و تنہا کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ آواز میں اعوذ پڑھنا سنت ہے۔
(خزائن العرفان، صفحہ 2 — علامہ نعیم الدین مراد آبادی)
سورۃ فاتحہ سے دم کرنا
بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔
دورانِ سفر وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔
صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی۔
اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔
قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔
ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں، ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔
چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔
اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔
کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟
ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے دم کر دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے انکار کر دیا
اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں دم کر سکتا۔
آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔
وہ صحابی وہاں گئے اور «الحمد لله رب العالمين» سورت پڑھ کر دم کیا۔
ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔
وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔
بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔
کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو
لیکن جنہوں نے دم کیا تھا، وہ بولے
نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ ﷺ سے اس کا ذکر کر لیں۔
چنانچہ سب حضرات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا
“یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رُقیَہ ہے؟”
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا
“تم نے ٹھیک کیا۔ اب اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔”
یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ مسکرا پڑے۔ (بخاری شریف #2276)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر بیمار شخص پر دم کرنا جائز ہے،
اور یہ کہ قرآن پڑھ کر دم کرنے کی اجرت لینا بھی جائز ہے
اور قرآن مجید و کتب دینیہ پر اجرت لینے کا بھی جواز ہے۔
اور اس میں مصحف شریف کو قیمتاً فروخت کرنے
اور مصحف شریف کی کتابت پر اجرت لینے کا بھی جواز ہے۔
اور یہ کہ استاد کی تعلیم سے شاگرد کو جو آمدنی ہو اس میں استاد کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ اب کسی بیمار کو سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا جائے اور وہ شفاء نہ پائے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دم کرنے والے میں روحانیت کی کمی ہے
سورۃ فاتحہ کے شفاء ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے۔
(تبیان القرآن، علامہ غلام رسول سعیدی، جلد 1، صفحہ 137)
