Quran and Hadith Relationship / قرآن و حدیث کا باہمی تعلققرآن و حدیث، دو چراغ جن سے دل کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔

 قرآن و حدیث کا باہمی ربط اور مشکٰوۃ شریف کا تعارف


 قرآن و حدیث کا تعلق

قرآن سمندر ہے حدیث اس کا جہاز۔
قرآن موتی ہیں اور مضامینِ حدیث ان کے غوّاص۔
قرآن اجمال ہے حدیث اس کی تفصیل۔
قرآن ابہام ہے حدیث اُس کی شرح۔
قرآن رُوحانی طعام ہے، حدیث رحمت کا پانی کہ پانی کے بغیر نہ کھانا تیار ہو نہ کھایا جائے۔
حدیث کے بغیر نہ قرآن سمجھا جائے نہ اُس پر عمل ہوسکے۔

قدرت نے ہمیں داخلی خارجی دو نوروں کا محتاج کیا ہے۔
نورِ بصر کے ساتھ نورِ قمر وغیرہ بھی ضروری۔
اندھے کے لیے سورج بے کار، اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ۔
ایسے ہی قرآن گویا سورج ہے، حدیث گویا مومن کی آنکھ کا نور یا قرآن ہماری آنکھ کا نور ہے اور حدیث آفتابِ نبوت کی شعاعیں۔
کہ ان میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں۔

اسی لیے ربّ العٰلمین نے قرآن کو کتاب فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نُور۔
“قَدْ جَآءَكُم مِّنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّكِتَابٌ مُّبِیْنٌ”
بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (محمد ﷺ) آگیا اور ایک روشن کتاب۔

کتاب اﷲ خاموش قرآن ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی شریف بولتا ہوا قرآن۔
وہ قال ہے، یہ حال۔
حضور کی ہر ادا قرآنی آیات کی تفصیل ہے۔

تیرے کردار کو قرآن کی تفسیر کہتے ہیں
غرضیکہ قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں یا مومن کے دو پر۔
جن میں سے ایک کے بغیر نہ یہ گاڑی چل سکتی ہے نہ مومن پرواز کرسکتا ہے۔
(مقدمہ، مرآۃ المناجیح، مفتی احمد یار خان نعیمی)


 درود شریف میں صلوٰۃ و سلام

درود شریف میں صلوۃ وسلام دونوں عرض کرنا چاہئیں کہ قرآن کریم نے دونوں کا حکم دیا۔
صرف صلوۃ یا صرف سلام بھیجنے کی عادت ڈال لینا ممنوع ہے۔ (از مرقات)

اسی لیے درودِ ابراہیمی صرف نماز کے لیے ہے کیونکہ اس میں صرف صلوۃ ہے، سلام نہیں۔
سلام “التحیات” میں ہوچکا ہوتا ہے،
تو نماز کے علاوہ یہ درود مکمل نہیں کہ اس میں صرف صلوۃ ہے اور سلام نہیں ہے۔


 تعارفِ مشکٰوۃ شریف

مشکوۃ المصابیح تقریباً 6294 احادیث کا مجموعہ،
ایک انسائیکلوپیڈیا ہے،
جس میں صحاح ستہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
سمیت 12 سے زائد کتب
موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل، سنن بیہقی وغیرہ سے احادیث کا انتخاب کیا گیا۔

اپنی اسی خاص اہمیت کی وجہ سے یہ کتاب صدیوں سے تمام مدارس کے نصاب میں شامل ہے
اور تمام مشائخ بھی اس کے دروس کا خاص اہتمام کرتے رہے
تاکہ ایک ہی حدیث کی کتاب میں سے تمام بڑے محدثین کی بیان کردہ احادیث سے فائدہ و فیض اٹھایا جا سکے۔

کتاب میں خاص طور پر 295 ابواب کو شامل کیا گیا ہے جو ہر انسان کی عملی زندگی سے متعلق ہیں۔
عربی، فارسی، اردو اور دیگر زبانوں میں اس کی بہت سی شروح لکھی گئی ہیں۔

ان میں

عربی کی مرقاۃ المفاتیح (از ملا علی قاری)

فارسی کی اشعۃ اللمعات (از شاہ عبد الحق محدث دہلوی)

اردو کی مرآۃ المناجیح (از مفتی احمد یار خان نعیمی)
بہت نمایاں ہیں۔


 مشکٰوۃ المصابیح کے معنی

مشکوۃ کا معنی ہے طاق — ایسا طاق جس میں چراغ رکھے جائیں۔
مصابیح، مصباح کی جمع ہے، معنی “چراغ”۔
یعنی مشکوۃ المصابیح = چراغوں کا طاق۔

مشکوٰۃ یعنی طاق، حضور انور ﷺ کا سینہ مبارک ہے
اور حضور علیہ السلام کے اقوال و احوال اس طاق کے چراغ ہیں۔
قرآن کتاب ہے، حضور ﷺ چراغ۔
اور چراغ کے بغیر کتاب پڑھی نہیں جاتی۔

حضور ﷺ کے بغیر قرآن سمجھا نہیں جاتا
ہر آیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان کردہ تفسیر کی حاجتمند ہے
ورنہ ہمیں کیا خبر کہ اَقِیْمُوا کے کیا معنی اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کسے کہتے ہیں
اور یہ کیسے ادا کیے جاتے ہیں۔


مؤلفِ مشکٰوۃ شریف

مشکوۃ شریف کو علامہ خطیب تبریزی نے مرتب فرمایا۔
انہوں نے امام بغوی کی کتاب مصابیح السنۃ کی ترتیب کو سامنے رکھا اور اسی میں مزید اضافہ فرمایا۔

امام بغوی نے اپنی کتاب مصابیح السنۃ کو مختصر رکھنے کے لیے صرف احادیث کے متن کو ہی بیان فرمایا
اور ہر باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا — احادیث کی اسناد یا مآخذ کا ذکر نہیں کیا۔

لیکن علامہ خطیب تبریزی نے نہ صرف تمام اسناد اور مآخذ کا اضافہ فرمایا
بلکہ ہر باب کو دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔

انہوں نے حصہ اول و دوم کو تقریباً اسی طرح رکھا جیسا مصابیح السنۃ میں تھا
لیکن اپنی طرف سے ہر باب میں تیسرے حصہ کا اضافہ کیا۔

مشکوۃ شریف کے ہر باب کا

پہلا حصہ: صرف بخاری و مسلم کی احادیث

دوسرا حصہ: بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب کی احادیث

تیسرا حصہ: اضافی متعلقہ احادیث جو امام بغوی کی کتاب میں نہیں تھیں


 (جاری ہے)

2 thought on “قرآن و حدیث کا باہمی ربط اور مشکٰوۃ شریف کا تعارف”

Leave a Reply

You cannot copy content of this page