حضرت مولانا جلال الدین رومی کی زبان مبارک سے یہ ساڑھے 28 ہزار درد ناک و علم و حکمت و معرفت الہیہ سے بھرپور اشعار ، حضرت شمس الدین تبریزی کے فیوض وبرکات سے جاری ہوئے،
جن کو لکھنے کی استدعا ان سے ان کے مرید و رفیق خاص حضرت حسام الدین نے کی تھی،
ایسے اشعار جن کی بنیادیں محدود مگر معانی غیر محدود ہیں، (قصیرة المبانی کثیرة المعانی)
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور مولانا جامی مثنوی شریف متعلق فرماتے ہیں کہ،
ہست قرآن در زبان پہلوی
مثنوی مولوی معنوی
(مولانا جامی)
………………………………………………………………………..
روئے خود بنمود پیر حق سرشت
کو بحرف پہلوی قرآن نوشت
(علامہ اقبال)
………………………………………………………………………..
مثنوی نا صرف تصوف بلکہ اخلاقیات کی بھی کتاب ہے، بلکہ یہ عقائد اور کلام کی بھی بہترین تصنیف ہے، مثنوی شریف ایک الہامی کلام ہے، ایسا کلام جو بالوحی نہیں بلکہ بالالہام القا کیا گیا،
پہلے شعر میں “نے” بانسری سے مراد روح انسانی ہے،
………………………………………………………………………..
انسانی روح جو کہ عالم ارواح میں محبت و معرفت ، صفات حمیدہ و ذکر دائم میں ہمیشہ مشغول تھی جب اسے عالم ملکوت (ارواح) سے عالم ناسوت (اجسام) میں آنا پڑا، تو ایک تو یہ کہ اسے جدائی برداشت کرنی پڑی، اور دوسرا اس کی صفات روحانیہ محبت و معرفت میں کمی یا خاتمہ اور صفات جسمانیہ شہوت و غضب وغیرہ میں اضافہ ہو گیا،
………………………………………………………………………..
تو جب کبھی کسی مرد کامل یا درویش کی صحبت و توجہ سے اسے وہ عالم ملکوت و صفات روحانیہ یاد آتی ہیں تو وہ اس عالم کو یاد کر آہ و فغاں و نالہ و فریاد کرتی ہے تڑپتی ہے، اس گزرے وقت کو یاد کرتی ہے جب اس کو دائمی ذکر الہی و حضوری حاصل رہتی تھی،
………………………………………………………………………..
چونکہ روح میں جدائی اور اپنی صفات حمیدہ کے کھو جانے کا غمِ اعظم مضمر ہے، تو اسی غم کی وہ شکایات کرتی ہے، جس کو مولانا رومی نے اپنے پہلے شعر میں “نے” یعنی بانسری سے تشبیہ دی، کہ بانسری (روح) سے سن کہ کیا حکایت بیان کرتی اور جدائیوں کی کیا شکایات کرتی ہے،
………………………………………………………………………..
انسانی روح کی یہ آہ و فغاں و گریہ زاری و رونا تڑپنا، غم جدائی، ہمیشہ نامکمل رہنے کا خیال، اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہ دیدار الہی سے فیضیاب نا ہو جائے، اور جنت الفردوس میں حق تعالی کی طرف سے یہ صدا نا سن لے،
سلام قولا من رب رحیم