حفظ القرآن کروانے کے نام پر، جس جس نے آجکل اپنے بچے کا مستقبل خراب کرنا، یا اسے ذہنی طور تاحیات ڈسٹرب کرنا ہے وہ اپنے بچے کو کسی روایتی مدرسہ میں ڈال دے
آجکل 90 فیصد بچے قرآن پاک پورا حفظ کیوں نہیں کر پاتے؟
اگر کوئی حفظ کر بھی لے، تو کیوں وہ یاد نہیں رکھ پاتے؟ یا تراویح پڑھانے کے لائق نہیں ہو پاتے؟
جس قسم کا بد دیانت معاشرہ پاکستان میں وجود پذیر آ چکا ہے اس کے اثرات لازمی طور تمام مدارسِ دینیہ میں بھی موجود ہوتے ہیں کہ اہل مدارس بھی اسی بد دیانت معاشرہ کا حصہ ہی ہوتے ہیں
ایک مثال سے تمام صورتحال کو سمجھ لینا بہتر ہے
اگر کسی مدرسہ یا سکول میں حفظ کی کلاس میں 25 یا 30 بچے حفظ قرآن کو موجود ہیں، (عام طور پرایک کلاس میں یہی تعداد ہوتی ہے بلکہ بعض جگہ اس سے بھی زیادہ بچے ایک ایک کلاس میں ہوتے ہیں)
تو صرف اس ایک حافظ و قاری کی جگہ پر خود کو لا کر سوچیں کہ کیا 30 بچوں کی کلاس میں آپ 30 بچوں کی سبقی، (جو روز کا ایک پارہ ہوتی ہے) اور 30 بچوں کی منزل (وہ بھی روز کا ایک پارہ ہوتی ہے
یہ مجموعی طور 60 پارے بن گئے
تو کیا آپ 60 پارے روز کے روز دھیان سے کان لگا کر سن سکتے ہیں؟
مطلب روز کے دو قرآن دھیان سے کان لگا کر سننا
سبقی اور منزل کے علاوہ بچوں کا سبق بھی ہوتا ہے، اس کا وقت اور سننا الگ شمار کیا جائے
پھر کسی کو سبق یا سبقی یا منزل صحیح یاد نہ ہو تو اسے واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ دوبارہ یاد کر کے سنائے یہ سب ایک حافظ و قاری کی ڈیوٹی میں ایڈ کیا جاتا رہے
تو مجموعی طور 25 سے 30 بچوں کی کلاس میں ایک حافظ و قاری کو روزانہ 90 پارے، یعنی 3 قرآن سننے ہوں گے، وہ بھی پورے دھیان سے، کان لگا کر
یہ ایک انسانی طاقت سے ہی باہر کی بات ہے
بلکہ 3 قرآن تو کیا آج کا انسان 3 پارے بھی مسلسل دھیان سے، کان لگا نہیں سن سکتا
(اپنی ذاتی مثال لے لیں)
لہذا نہ تو کوئی بھی حافظ و قاری یہ سن سکتا ہے، نہ ہی ایسا تصور کیا جانا چاہیئے
تو ایسی صورت میں ہوتا کیا ہے
جب حافظ و قاری خود سنتے ہیں تو وہ دو دو چار چار بچوں کا اکٹھا اکٹھا سنتے ہیں، اور بالکل بھی دھیان سے کسی ایک کا بھی نہیں سن پاتے، نہ سن سکتے ہیں
یا دوسرا طریقہ ہوتا ہے کہ بچے آپس میں ایک دوسرے کو سنا لیں تو تمام بچے حافظ و قاری کو سناتے ہوئے بھی سارا غلط سناتے ہیں، اور آپس میں سناتے ہوئے تو ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور ڈراموں گیموں کرکٹ وغیرہ کی سٹوریز سنا کہہ دیتے ہیں کہ سنا لیا ہم اپنا پورا کام
کہ نہ سنانے والے کا سنانے کا موڈ ہے، نہ سننے والے کا سننے کا موڈ اور حوصلہ ہے
اور مزید اس پر یہ کہ قاری صاحبان ساتھ دیگر امور و موبائل فون بھی استعمال کرنا ہے
قاری و حافظ صاحبان کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ بچے کا سبقی پارہ کونسا ہے اور منزل پارہ کونسا ہے، بچے کو جو چند پارے یاد ہوتے ہیں وہی بار بار سناتا رہتا ہے، جو یاد نہیں ہوتے وہ کبھی سناتا ہی نہیں اور کلاس میں زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے قاری صاحبان کو یہ یاد رکھنا بھی مشکل و ناممکن ہوتا ہے
ویسے بھی جس حافظ و قاری کو ماہانہ 15 سے 20 ہزار تنخواہ دی جانی ہے
اس سے آپ اس سے زیادہ توقع بھی کیا رکھ سکتے ہیں؟
شوق سے ہر کوئی حفظ قرآن کا استاد بھی نہیں بنا ہوا ہوتا، بس جس حافظ و قاری کے پاس کرنے کو کوئی اور کام نہیں ہوتا یا جس کو کچھ اور نہیں آتا ہوتا وہ بچوں کو پڑھا ہی اپنا گزارہ کرنے کی جدوجہد میں ہوتا ہے، تو مجموعی طورسارا معاشرہ ہی ذمہ دار ہے
آج کے دور اگر کوئی حافظ و قاری شوق سے یا ثواب کی نیت سے قرآن پڑھتا پڑھاتا اور حفظ کرواتا ہے تو وہ ضرور اللہ کا ولی ہے
واپس موضوع پر آتے ہیں
نتیجتا 5/6 سال بعد والدین کو نتیجہ ملتا ہے کہ نہ بچے کو قرآن آتا ہے، اور پانچ چھے سال سکول نہ جانے کی وجہ سے وہ سکول میں بھی ہمیشہ کے لئے پیچھے رہ جاتا ہے، ساری زندگی بچے کی ہینڈ رائٹنگ بھی خراب رہتی ہے اور ذہنی طور پوری فیملی بھی الجھ جاتی ہے
اور والدین ڈھونڈتے ہیں کہ پتہ نہیں کونسا گناہ ہے کہ ہم ایک حافظ قرآن کے والدین نہیں بن سکے
لیکن یہاں زیادہ قصور حقیقتا آپ کے گناہوں کا نہیں بلکہ آپ کی مِس مینجمنٹ کا ہے، کہ آپ نے نظام کو سمجھا جانا ہی نہیں اور لاوارثوں کی طرح صرف مدارس و حافظ و قاری پر اعتماد رکھتے، بچے کی زندگی کے اہم ترین سال ضائع کروا دیئے
اہم ترین نکتہ
حفظ کے مدارس میں بچوں کے خراب ہو جانے، بگڑ جانے کی ایک بڑی وجہ ، حفظ کی کلاس میں تمام بچوں کا ایک ہی عمر کا نہ ہونا ہے، کہ اسی کلاس میں ایک 10 سال کا بچہ بھی بیٹھا ہوا ہے اور اسی کلاس میں ایک 20 اور 25 سال کا طالب علم بھی موجود ہے، تو اپنے سے زیادہ بڑے اور بلکہ عمر میں ڈبل، طالب علم کے ساتھ پڑھنا بیٹھنا کھیلنا معاملات کرنا ایک کم عمر بچے کو ضرور بگاڑ دیتا ہے
اب جس نے کامیاب حفظ کروانا ہے، اس کا صحیح طریقہ کیا ہے
نمبر 1
کسی ایسے مدرسہ یا سکول میں بچے کو ڈالیں جہاں زیادہ سے زیادہ صرف 10 بچے ایک کلاس میں ہوں
اس سے بھی کم ہوں تو زیادہ بہتر ہے
نمبر 2
بچے کے سبق، سبقی، منزل پر آپ کی روز کی مکمل نظر ہو، ایک ایک لائن کا آپ کو پتہ ہو کہ آج یہ کہاں تک پہنچ چکا ہے، آج اس کی سبقی کیا تھی اور منزل کیا سنائی ہے
نمبر 3
سب سے اہم ترین یہ کہ مدرسہ اور سکول کے علاوہ گھر میں ایک مزید پرائیویٹ حافظ و قاری کو الگ سے ایک گھنٹہ کے لئے بلایا جائے، جو ہر روز ڈیڑھ سے دو پارے بچے کے سنے، ورنہ مکمل طور بھول جائیں کہ بچہ کامیاب ہو سکے، یہ قاری صاحب مدرسہ کے قاری صاحب سے الگ ہوں
نمبر 4
بچہ ریگولر ہو مدرسہ اور سکول بھی جاتا رہے، اور گھر میں پرائیویٹ طور روز ایک گھنٹہ، ڈیڑھ سے دو پارے بھی پرائیویٹ ٹیوٹر حافظ کو سناتا رہے
نمبر 5
جو یہ تمام کام نہ کرے گا، وہ بھول جائے کہ اول تو اس کا بچہ حفظ مکمل کر سکے، اور اگر کر بھی لے تو اس کو یاد بھی رہ جائے، اور وہ تراویح بھی پڑھا لے ایسا کچھ بھی نہ ہو پائے گا
نمبر 6
دورانِ حفظ مندرجہ بالا تمام ہدایات پر عمل ضروری ہو گا، اور حفظ مکمل ہو جانے کے بعد حافظ کو روزانہ ایک پارہ لازمی پڑھنا ہو گا
لیکن چند سال تراویح پڑھا لینے کے بعد حافظ کی منزل یعنی سارا قرآن ایسا ہو جائے گا کہ اب وہ اگر صرف سال بعد رمضان میں بھی قرآن کھولے گا تو قرآن اسے یاد ہو گا اور تراویح پڑھانے میں کوئی دقت نہ ہو گی، ان شاء اللہ
نمبر 7
بھولے ہوئے حافظ کو آسانی سے قرآن دوبارہ یاد کرنے کو مختصر سی عربی گرائمر پڑھنی ہو گی، خاص طور پر ابتدائی درجہ کی علم الصرف، جس سے وہ قرآن پاک کے مطالب و ترجمہ کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گا، اور ترجمہ کے ساتھ قرآن یاد کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور دلچسپی بھی رہتی ہے
یہی طریقہ بڑی عمر میں حفظ کی خواہش کرنے والے افراد بھی اختیار کر سکتے ہیں، کہ پہلے مختصر سی عربی گرائمر علم الصرف پڑھیں اور پھر قرآن حفظ کرنا شروع کر دیں
اس سلسلہ رومی لائبریری سے شائع کردہ چار صفحات کی عربی گرائمر کافی ہو گی، ان شاء اللہ
نمبر 8
مدرسہ میں حفظ کی کلاس میں ، لازمی طور تمام بچوں کا ایک ہی، یا قریب قریب کی عمر کا ہونا ضروری ہے، کسی بھی ایسے مدرسہ یا کلاس میں اپنے بچے کوہرگز نہ ڈالیں جس میں چھوٹی بڑی عمر کے تمام طالب علم ایک ساتھ پڑھتے ہوں ،اور ایک دوسرے کے کلاس فیلو ہوں
نمبر 9
مسلسل دعا کرتے رہنے سے اللہ اچھے اسباب، اساتذہ و ماحول میسر فرما دیتا ہے، اور حفظ کرنے اور سنبھالنے کا سفر سہل ہو جاتا ہے
Ya website use kasa hoti ha