عِلْمِ ذاتی وہ علم کہ اپنی ذات سے بغیرکسی کی عطاکے ہو(اسے” علم ذاتی” کہتے ہیں)،اوریہ صرف اللہ عزّوجلّ ہی کے ساتھ خاص ہے
عِلمِ عطائی وہ علم جواللہ عزوجل کی عطاسے حاصل ہو،اسے” علم عطائی” کہتے ہیں۔
مُعْجِزہ نبی سے بعد دعوی نبوت خلاف عقل وعادت صادر ہونے والی چیزکوجس سے سب منکرین عاجز ہوجاتے ہیں اسے معجزہ کہتے ہیں۔
مُحْکَمْ جس کے معنی بالکل ظاہرہوں اوروہی کلام سے مقصودہوں اس میں تاویل یاتخصیص کی گنجاءش نہ ہواور نسخ یاتبدیل کااحتمال نہ ہو۔
مُتَشابہ جس کی مرادعقل میں نہ آسکے اوریہ بھی امیدنہ ہوکہ رب تعالیٰ بیان فرمائے ۔
اِلہام ولی کے دل میں بعض وقت سوتے یاجاگتے میں کوئی بات اِلقاہوتی ہے(یعنی دل میں ڈالی جاتی ہے)۔اس کوالہام کہتے ہیں ۔
وحی شیطانی جوشیطان کی جانب سے کاہن ،ساحر،کفاروفُسّاق کے دلوں میں ڈالی جاتی ہے۔
اِرہاص نبی سے جوبات خلافِ عادت نبوت سے پہلے ظاہرہواس کوارہا ص کہتے ہیں۔
کرامت ولی سے جوبات خلافِ عادت صادرہواس کوکرامت کہتے ہیں۔
مَعُونت عام مومنین سے جوبات خلاف عادت صادرہواس کومعونت کہتے ہیں۔
اِسْتِدراج بے باک فُجّاریاکفارسے جوبات ان کے موافق ظاہرہواس کواستدراج کہتے ہیں ۔
اِہانت : بے باک فجاریاکفارسے جوبات ان کے خلاف ظاہرہواس کواہانت کہتے ہیں ۔
شَفاعَت بالوجاہۃ : مُسْتَشْفَعْ اِلیہ (جس سے سفارش کی گئی ) کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والے کوجووجاہت (عزت اورمرتبہ) حاصل ہے اس کے سبب شفاعت کا قبول ہوناشفاعت بالوجاہت ہے۔
شَفاعت بالمحبۃ : وہ شفاعت جس کی قبولیت کاسبب مُسْتَشْفَعْ اِلیہ (جس سے سفارش کی گئی ) کی شفاعت کرنے والے سے محبت ہے۔
شفاعت بالاذن : اس کامعنی یہ ہے کہ جس کے لیے شفاعت کی گئی ہے، شفاعت کرنے والے کومُسْتَشْفَعْ اِلیہ کے سامنے اس کی شفاعت پیش کرنے کی اجازت ہو۔
بَرزخ : دنیااورآخرت کے درمیان ایک اورعالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں ۔
ایمان : سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرناجوضروریاتِ دین سے ہیں ایمان کھلاتاہے۔
ضروریاتِ دین : اس سے مرادوہ مسائل دین ہیں جن کوہرخاص وعام جانتے ہوں ،جیسے اللہ عزوجل کی وَحْدَانِیَّت،انبیاء علیھم السلام کی نبوت ،جنت ودوزخ وغیرہ۔
ماترید یہ : اھلسنت کاوہ گروہ جو فروعی عقائدمیں امام علم الہدی حضرت ابومنصورمَاتُریْدِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا پیروکارہے وہ ماتریدیہ کھلاتا ہے ۔
اَشاعِرہ : اھلسنت کا وہ گروہ جو فروعی عقائدمیں امام شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی کا پیروکارہے وہ اشاعرہ کھلاتا ہے۔
شرک : اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی دوسرے کوشریک کرناشرک کھلاتاہے۔
جِزْیہ : وہ شرعی محصول جواسلامی حکومت اھل کتاب سے ان کی جان ومال کے تَحفُّظ کے عوض میں وصول کرے ۔
تَقلید : کسی کے قول وفعل کواپنے اوپرلازم شرعی جاننا یہ سمجھ کرکہ اس کا کلام اوراس کاکام ھمارے لیے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے،جیسے کہ ہم مسائل شرعیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کاقول وفعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظرنہیں کرتے۔
٭ شرعی مسائل تین طرح کے ہیں (۱)عقائد ،ان میں کسی کی تقلید جائزنہیں (۲)وہ احکام جوصراحۃً قرآن پاک یا حدیث شریف سے ثابت ہوں اجتہاد کوان میں دخل نہیں ،ان میں بھی کسی کی تقلید جائزنہیں جیسے پانچ نمازیں ،نماز کی رکعتیں ،تیس روزے وغیرہ (۳)وہ احکام جوقرآن پاک یا حدیث شریف سے استنباط و اجتہادکرکے نکالے جائیں ،ان میں غیرمجتہد پرتقلید کرناواجب ہے ۔
قیاس : قیاس کا لغوی معنی ہے اندازہ لگانا،اور شریعت میں کسی فرعی مسئلہ کواصل مسئلہ سے علت اورحکم میں ملادینے کو قیاس کہتے ہیں۔
بِدعت : وہ اِعْتِقَادیا وہ اَعمال جو کہ حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ۔
بدعت مذمومہ : جوبدعت اسلام کے خلاف ہو یاکسی سنت کومٹانے والی ہووہ بدعت سیئہ ہے۔
بدعت مکروہَہ : وہ نیا کام جس سے کوئی سنت چھوٹ جاوے اگرسنت غیرمؤکدہ چھوٹی تویہ بدعت مکروہ تنزیہی ہے اوراگرسنت مؤکدہ چھوٹی تویہ بدعت مکروہ تحریمی ہے۔
بدعت حَرام وہ نیاکام جس سے کوئی واجب چھوٹ جاوے،یعنی واجب کومٹانے والی ہو۔
بدعت مستحبہ : وہ نیاکام جوشریعت میں منع نہ ہواوراس کوعام مسلمان کارِ ثواب جانتے ہوں یاکوئی شخص اس کونیت خیرسے کرے ،جیسے محفل میلاد وغیرہ۔
بدعت جائز (مُبَاح) :ہروہ نیاکام جوشریعت میں منع نہ ہواوربغیرکسی نیتِ خیرکے کیاجاوے جیسے مختلف قسم کے کھانے کھاناوغیرہ۔
بدعت واجب : وہ نیاکام جوشرعاًمنع نہ ہواور اس کے چھوڑنے سے دین میں حرج واقع ہو،جیسے کہ قرآن کے اعراب اوردینی مدارس اورعلمِ نحو وغیرہ پڑھنا۔
خلافتِ راشدہ : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق وامام مطلق حضرت سیدناابوبکرصدیق ،پھرحضرت عمرفاروق،پھرحضرت عثمان غنی ،پھرحضرت مولی علی ،پھرچھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالیٰ عنھم ہوئے ،ان حضرات کوخلفائے راشدین اوران کی خلافت کوخلافت راشدہ کہتے ہیں
عشرہ مبشرہ : وہ دس صحابہ جن کوسرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں ان کوجنت کی بشارت دی۔حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمرفاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی المرتضی،حضرت طلحہ بن عُبَیْد اللہ ،حضرت زبیربن العوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت سعدبن ابی وقاص،حضرت سعیدبن زید،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین ۔
خطاء مُقرر : یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ پیدانہ ہوتاہو ،جیسے ھمارے نزدیک مقتدی کاامام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱،ص۱۲۸)
خطامُنکَر : یہ وہ خطااجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا کہ اس کی خطاء باعث فتنہ ہے۔
نَذرشرعی : وہ عبادت مقصودہ ہے جوجنس واجب سے ہواوروہ خود بندہ پرواجب نہ ہو،مگربندہ نے اپنے قول سے اسے اپنے ذمہ واجب کرلیا،اوریہ اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے اس کاپورا کرناواجب ہے۔
نذرلغوی(عرفی) : اولیاء اللہ کے نام کی جونذرمانی جاتی ہے اسے نذرلغوی کہتے ہیں اس کامعنی نذرانہ ہے جیسے کہ کوئی اپنے استاد سے کہے کہ یہ آپ کی نذرہے یہ بالکل جاءز ہے یہ بندوں کی ہوسکتی ہے مگراس کاپورا کرناشرعاًواجب نہیں مثلاًگیارہویں شریف کی نذراورفاتحہ بزرگان دین وغیرہ۔
عبادتِ مَقْصودہ : وہ عبادت جوخودبالذات مقصود ہوکسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو، مثلاً نماز وغیرہ۔
عبادتِ غیرمقصودہ : وہ عبادت جوخودبالذات مقصودنہ ہوبلکہ کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ ہو۔
فرض : جودلیل قطعی سے ثابت ہویعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔
دلیل قطعی : وہ ہے جس کاثبوت قرآن پاک یاحدیث متواترہ سے ہو۔
فرض کفایہ : وہ ہوتاہے جوکچھ لوگوں کے اداکرنے سے سب کی جانب سے اداہوجاتاہے اورکوئی بھی ادانہ کرے توسب گناہ گارہوتے ہیں ۔جیسے نمازجنازہ وغیرہ۔ (وقارالفتاوی، ج ۲، ص ۵۷)
واجب : وہ جس کی ضرورت دلیل ظنّی سے ثابت ہو۔
دلیل ظنی : وہ ہے جس کاثبوت قرآن پاک یاحدیث متواترہ سے نہ ہو،بلکہ احادیث احاد یامحض اقوال ائمہ سے ہو۔
سنت مؤکدہ : وہ ہے جس کوحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہوالبتہ بیان جواز کے لیے کبھی ترک بھی کیاہو۔
سنّتِ غیر مؤکدہ : وہ عمل جس پر حضورِ اقدس ﷺنے مداومت(ہمیشگی) نہیں فرمائی ،اور نہ اس کے کرنے کی تاکیدفرمائی لیکن شریعت نے اس کے ترک کو ناپسند جاناہواور آپ ﷺنے وہ عمل کبھی کیاہو ۔
مُستحب : وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگرترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو، خواہ خود حضورِ اقدس ﷺنے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔
مُباح : وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
حرام قطعی : جس کی ممانعت دلیل قطعی سے لزوماً ثابت ہو،یہ فرض کا مُقابِل ہے۔
مکروہ تحریمی : جس کی ممانعت دلیل ظنی سے لزوماً ثابت ہو،یہ واجب کا مقابل ہے۔
اِسا ء ت : وہ ممنوع شرعی جس کی ممانعت کی دلیل حرام اورمکروہ تحریمی جیسی تو نہیں مگر اس کاکرنا برا ہے،یہ سنّتِ مؤکدہ کے مقابل ہے۔
مکروہ تنزیہی : وہ عمل جسے شریعت ناپسندرکھے مگرعمل پرعذاب کی وعیدنہ ہو۔یہ سنّتِ غیر مؤ کدہ کے قابل ہے۔
خلاف اَولیٰ : وہ عمل جس کانہ کرنابہترہو۔یہ مستحب کا مقابل ہے۔
حیض : بالغہ عورت کے آگے کے مقام سے جوخون عادی طور پرنکلتاہے اور بیماری یابچہ پیداہونے کے سبب سے نہ ہوتو اسے حیض کہتے ہیں۔
نِفاس : وہ خون ہے کہ جو عورت کے رحم سے بچہ پیداہونے کے بعد نکلتاہے اسے نفاس کہتے ہیں ۔
اِسْتحاضہ : وہ خون جوعورت کے آگے کے مقام سے کسی بیماری کے سبب سے نکلے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں۔
نجاست غلیظہ : وہ نجاست جس پرفقہا کااتفاق ہواوراس کاحکم سخت ہے،مثلاًگوبر،لید ،پاخانہ وغیرہ۔
نجاست خفیفہ : وہ نجاست جس میں فقہا کااختلاف ہواوراس کاحکم ھلکاہے جیسے گھوڑے کاپیشاب وغیرہ۔
مَنی : وہ گاڑھا سفید پانی ہے جس کے نکلنے کی وجہ سے ذَکرکی تُنْدی اورانسان کی شہوت ختم ہوجاتی ہے۔
مَذِی : وہ سفید رقیق (پتلا)پانی جوملاعبت (دل لگی) کے وقت نکلتاہے۔
وَدِی : وہ سفیدپانی جوپیشاب کے بعد نکلتاہے۔
معذور: ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہو کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کرسکاتووہ معذورہے۔
مُباشرتِ فاحشہ : مرد اپنے آلہ کو تندی کی حالت میں عورت کی شرمگاہ یاکسی مرد کی شرمگاہ سے ملائے۔یاعورت ،عورت باہم ملائیں بشرطیکہ کوئی شے حائل نہ ہو۔
آب جارِی : وہ پانی جو تنکے کو بہاکر لے جائے۔
نجاست مرئیہ : وہ نجاست جوخشک ہونے کے بعدبھی دکھائی دے ۔جیسے پاخانہ۔
نجاست غیرمرئیہ : وہ نجاست جوخشک ہونے کے بعد دکھائی نہ دے۔جیسے پیشاب۔
مائے مُسْتعمَل : وہ قلیل پانی جس سے حدث دورکیاگیاہویادورہواہویابہ نیت تقرُّب استعمال کیاگیاہو،اوربدن سے جداہوگیاہواگرچہ کہیں ٹھہرانہیں روانی ہی میں ہو۔
اِستبراء : پیشاب کرنے کے بعد کوئی ایسا کام کرناکہ اگر کوئی قطرہ رکاہوتو گرجائے۔
حدثِ اصغر: جن چیزوں سے صرف وضولازم ہوتاہے ان کوحدث اصغر کہتے ہیں۔
حدثِ اکبر : جن چیزوں سے غسل فرض ہوان کوحدث اکبر کہتے ہیں۔
مرتد : وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے امر کاانکار کرے جوضروریات دین سے ہو یعنی زبان سے کلمہ کفر بکے جس میں تاویل صحیح کی گنجاءش نہ ہو۔یوہیں بعض افعال بھی ایسے ہیں جن سے کافر ہوجاتاہے مثلاً بت کوسجدہ کرنا،مصحف شریف کونجاست کی جگہ پھینک دینا۔
شَفق : شفق ھمارے مذہب میں اس سپیدی کانام ہے جوجانب مغرب میں سرخی ڈوبنے کے بعد جنوباً شمالاً صبح صادق کی طرح پھیلی ہوئی رہتی ہے۔
صبحِ صادق : ایک روشنی ہے کہ مشرق کی جانب جہاں سے آج آفتاب طلوع ہونے والا ہے اس کے اوپر آسمان کے کنارے میں جنوباًشمالاًدکھائی دیتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے،یہاں تک کہ تمام آسمان پرپھیل جاتی ہے اورزمین پر اجالا ہوجاتاہے۔
صبح کاذب : صبح صادق سے پہلے آسمان کے درمیان میں ایک دراز سفیدی ظاہر ہوتی ہے جس کے نیچے سارا افق سیاہ ہوتاہے پھر یہ سفیدی صبح صادق کی وجہ سے غائب ہوجاتی ہے اسے صبح کاذب کہتے ہیں۔
سایہ اصلی : وہ سایہ جونصفُ النَّہارکے وقت (ہر چیزکا)ہوتاہے۔
نِصْفُ النَّہار شرعی : طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے نصف کونِصْفُ النَّہار شرعی کہتے ہیں ۔
نِصْفُ النَّہار حقیقی(عرفی)طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے نصف کو نصف النہارحقیقی کہتے ہیں ۔
ضحوہ ئکُبریٰ: نصف النہار شرعی کوہی ضحوہ کبریٰ کہتے ہیں۔
وقت اِستواء : نصف النہار کاوقت یعنی اسے مراد ضحوہ کبریٰ سے لے کر زوال تک پورا وقت مراد ہے۔
خطِ استواء : وہ فرضی دائرہ جو زمین کے بیچ وبیچ قطبوں سے برابرفاصلے پرمشرق سے مغرب کی طرف کھینچاہو اماناگیاہے،جب سورج اس خط پر آتاہے تو دن رات برابر ہو تے ہیں۔
عرض بلد : خط استواء سے کسی بلد کی قریب ترین دوری کوعرض بلد کہتے ہیں۔
مثل اول : کسی چیزکاسایہ ،سایہ اصلی کے علاوہ اس چیز کے ایک مثل ہوجائے۔
مثل ثانی : کسی چیز کاسایہ ،سایہ اصلی کے علاوہ اس چیز کے دومثل ہوجائے ۔
اوقاتِ مکروہہ : یہ تین ہیں،طلوع آفتاب سے لے کربیس منٹ بعد تک ،غروب آفتاب سے بیس منٹ پہلے اور نصف النہاریعنی ضحوہ کبریٰ سے لے کرزوال تک ۔
صاحبِ ترتیب : وہ شخص جس کی بلوغت کے بعد سے لگاتارپانچ فرض نمازوں سے زائد کوئی نماز قضانہ ہوئی ہو۔
تَثویب : مسلمانوں کو اذان کے بعدنماز کے لیے دوبارہ اطلاع دیناتثویب ہے۔
شرط: وہ شے جوحقیقت شی میں داخل نہ ہولیکن اس کے بغیرشے موجودنہ ہو،جیسے نمازکے لیے وضو وغیرہ۔
خُنْثیٰ مشکِل : جس میں مردوعورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور یہ ثابت نہ ہوکہ مرد ہے یاعورت۔
رکن : وہ چیز ہے جس پرکسی شے کاوجود موقوف ہواور وہ خود اس شے کاحصہ اور جزہوجیسے نماز میں رکوع وغیرہ۔
خُروج بصُنْعِہ : قعدہ اخیرہ کے بعد سلام وکلام وغیرہ کوئی ایسا فعل جومنافی نماز ہوبقصد کرنا۔
تَعدِیل ارکان : رکوع وسجود وقومہ وجلسہ میں کم از کم ایک بار سبحان اللہ کہنے کی قدر ٹھہرنا۔
قَومہ : رکوع کے بعد سیدھاکھڑاہونا۔
جَلسہ: دونوں سجدوں کے درمیان سیدھابیٹھنا۔
محال عادِی : وہ شے جس کاپایاجاناعادت کے طورپرناممکن ہواسے محال عادی کہتے ہیں ،مثلاً کسی ایسے شخص کاہوامیں اڑناجس کوعادۃً اڑتے نہ دیکھاگیاہو۔
محال شرعی: وہ شے جس کاپایاجاناشرعی طورپرناممکن ہواسے محال شرعی کہتے ہیں ،مثلاً کافرکاجنت میں داخل ہوناوغیرہ۔
طوالِ مُفَصَّل: سورہ حجرات سے سورہ بروج تک طوال مفصل کھلاتاہے۔
اوساط مُفَصَّل: سورہ بروج سے سورہ لم یکن تک اوساط مفصل کھلاتاہے۔
قصار مُفَصَّل : سورہ لم یکن سے آخرتک قصارمفصل کھلاتاہے۔
اِدْغام : ایک ساکن حرف کودوسرے متحرک حرف میں اس طرح ملاناکہ دونوں حروف ایک مشددحرف پڑھا جائے ۔
تَرْخِیْم : منادیٰ کے آخری حرف کوتخفیفاًگرادیناترخیم کھلاتاہے ۔
غُنّہ : ناک میں آواز لے جاکرپڑھنا۔ (علم التجوید،ص۳۸)
اِظْہار : حرف کواس کے مَخْرَج سے بغیر کسی تَغیُّر کے اورغُنّہ کے اداکرنے کوکہتے ہیں۔
اِخْفاء: اظہاراور ادغام کی درمیانی حالت ۔ (علم التجوید،ص۴۱)
مد و لین : واو، ی، الف ساکن اور ما قبل کی حرکت موافق ہو تو اس کو مدو لین کہتے ہیں۔ یعنی واو کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیرالف کے پہلے زبر
عارِیت : دوسرے شخص کواپنی کسی چیز کی مَنْفعَت کابغیرعوض مالک کردیناعاریت ہے۔
مُدْرِک : جس نے اول رکعت سے تشہُّد تک امام کے ساتھ (نماز)پڑھی اگرچہ پھلی رکعت میں امام کے ساتھ رکوع ہی میں شریک ہواہو۔
لَاحِق : وہ کہ( جس نے )امام کے ساتھ پھلی رکعت میں اقتداکی مگر بعد اقتدا اس کی کل رکعتیں یابعض فوت ہو گئیں۔
مَسْبُوق : وہ ہے کہ امام کی بعض رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوااور آخر تک شامل رہا۔
لاحق مسبوق: وہ ہے جس کوکچھ رکعتیں شروع میں نہ ملیں ،پھر شامل ہونے کے بعد لاحق ہوگیا۔
تکبیرات تَشْرِیق : عرفہ یعنی نویں ذوالحَجّۃ الحرام کی فجر سے تیرھویں کی عصر تک ہر فرض نمازکے بعدبلند آواز کے ساتھ ایک بار اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھنا۔
عملِ قلیل: جس کام کے کرنے والے کو دورسے دیکھنے والا اس شک وشبہ میں پڑ جائے کہ یہ نماز میں ہے یانہیں توعمل قلیل ہے۔
عملِ کثیر: جس کام کے کرنے والے کودورسے دیکھنے سے ایسالگے کہ یہ نماز میں نہیں ہے بلکہ گمان بھی غالب ہوکہ نمازمیں نہیں ہے تب بھی عمل کثیرہے۔
تَصْفِیْق: سیدھے ہاتھ کی انگلیاں الٹے ہاتھ کی پشت پرمارنے کو تصفیق کہتے ہیں۔
اِعْتِجَار : سرپر رومال یاعمامہ اس طرح سے باندھنا کہ درمیان کا حصہ ننگارہے تویہ اعتجارہے۔
اِسْبَال : تہہ بند یا پائنچے کا ٹخنوں سے نیچے خصوصاً زمین تک پہنچتے رکھنااسبال کھلاتا ہے
شُفْعِ اوّل شفعِ ثانی : چار رکعت والی نمازکی پھلی دو رکعتوں کو شفع اول اور آخری دو کو شفع ثانی کہتے ہیں۔
اَلْمَعْرُوْفُ کالْمَشْرُوط : یہ فقہ کاایک قاعدہ ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے یعنی جوچیز مشہور ہووہ طے شدہ معاملے کاحکم رکھتی ہے۔
اَلْمَعْھُودُ کالْمَشْرُوط : یہ فقہ کاایک قاعدہ ہے کہ معہودمشروط کی طرح ہے یعنی جوبات سب کے ذہن میں ہووہ طے شدہ معاملے کاحکم رکھتی ہے۔
وطنِ اصلی : وطن اصلی سے مراد کسی شخص کی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یااس کے گھرکے لوگ وہاں رہتے ہیں یاوہاں سَکُونت کرلی اوریہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔
وطنِ اِقامت: وہ جگہ ہے کہ مسافر نے پندرہ دن یااس سے زیادہ ٹھہرنے کاوہاں ارادہ کیاہو
شیخِ فَانِی : وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوکہ روز بروز کمزورہی ہوتاجائے گاجب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہویعنی نہ اب رکھ سکتاہے نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا(توشیخ فانی ہے
مُکاتب : آقااپنے غلام سے مال کی ایک مقدار مقرر کرکے یہ کہہ دے کہ اتنااداکردے توآزاد ہے اورغلام اس کوقبول بھی کرلے تو ایسے غلام کو مکاتب کہتے ہیں۔
ایام تشریق : یومِ نَحْر(قربانی)یعنی دس ذوالحجہ کے بعد کے تین دن(۱۱و۱۲و۱۳) کوایام تشریق کہتے ہیں۔
صاحبَیْن : فقہ حنفی میں امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما کو صاحبین کہتے ہیں ۔
اصحاب فرائض : اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن کامعیّن حصہ قرآن وحدیث میں بیان کردیاگیاہے۔ ان کواصحاب فرائض کہتے ہیں۔
عَصْبہ: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کاحصہ مقرر نہیں ،البتہ اصحاب فرائض کودینے کے بعد بچاہواما ل لیتے ہیں اوراگر اصحاب فرائض نہ ہوں تومیت کاتمام مال انھی کاہوتاہے۔
ذَوِی الْاَرْحام : قریبی رشتہ دار،اس سے مراد وہ رشتہ دارہیں جونہ تواصحاب فرائض میں سے ہیں اورنہ ہی عصبات میں سے ہیں۔
لَحد: قبرکھود کراس میں قبلہ کی طرف میّت کے رکھنے کی جگہ بنانے کولحد کہتے ہیں۔
شُفعہ: غیرمَنْقول جائیداد کوکسی شخص نے جتنے میں خریدااُتنے ہی میں اس جائیدادکے مالک ہونے کاحق جودوسرے شخص کوحاصل ہوجاتاہے اس کو شفعہ کہتے ہیں
جماعت نوافل بِالتّد اعِیْ :تداعی کالغوی معنی ہے ایک دوسرے کوبلانا جمع کرنا،اورتداعی کے ساتھ جماعت کامطلب ہے کہ کم ازکم چار آدمی ایک امام کی اقتداکریں
دارُالْحَرب : وہ دار جہاں کبھی سلطنت اسلامی نہ ہوئی یاہوئی اورپھرایسی غیرقوم کا تسلُّط ہوگیاجس نے شعائراسلام مثل جمعہ وعیدین واذان واقامت وجماعت یک لَخْت اٹھادئیے اورشعائرکُفرجاری کردئیے ،اورکوئی شخص اَمان اول پرباقی نہ رہے اوروہ جگہ چاروں طرف سے دارالاسلام میں گِھری ہوئی نہیں تووہ دارالحرب ہے۔
٭ دارالاسلام کے دارالحرب ہونے کی شرائط : دارالاسلام کے دارالحرب ہونے کی تین شرطیں ہیں (۱)اھل شرک کے احکام علی الاعلان جاری ہوں اور اسلامی احکام بالکل جاری نہ ہوں (۲)دارالحرب سے اس کااِتّصال ہوجائے(۳)کوئی مسلم یاذمی امان اول پر باقی نہ ہو۔
دَارُ الاسلام : وہ ملک ہے کہ فی الحال اس میں اسلامی سلطنت ہویااب نہیں توپہلے تھی اورغیرمسلم بادشاہ نے اس میں شعائراسلام مثل جمعہ وعیدین واذان واقامت وجماعت باقی رکھے ہوں تووہ دارالاسلام ہے
صلٰوۃُ الاَوَّابِین: نمازِ مغرب کے بعدچھ رکعت نفل پڑھنا۔
تَحیَّۃُ الْمَسْجد : کسی شخص کا مسجد میں داخل ہوکربیٹھنے سے پہلے دویاچاررکعت نمازپڑھنا۔
تحیّۃُ:الوضو: وضوکے بعداعضاء خشک ہونے سے پہلے دورکعت نمازپڑھنا۔
نمازِاِشراق: فجر کی نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے کے کم ازکم ۲۰منٹ بعد دو رکعت نفل ادا کرنا۔
نمازِچاشت : آفتا ب بلند ہونے سے زوال یعنی نصف النھارشرعی تک دویاچاریابارہ رکعت نوافل پڑھنا ۔
نمازواپسی سفر : سفرسے واپس آکرمسجد میں دو رکعتیں اداکرنا۔
صلاۃُ اللّیل : ایک رات میں بعد نمازعشاجونوافل پڑھے جائیں ان کوصلاۃ اللیل کہتے ہیں۔
نمازِتہجّد : نمازعشاپڑھ کرسونے کے بعدصبح صادق طلوع ہونے سے پہلے جس وقت آنکھ کھلے اٹھ کر نوافل پڑھنانمازتہجد ہے۔
نمازِاستخارہ : جس کام کے کرنے نہ کرنے میں شک ہو اس کوشروع کرنے سے پہلے دورکعت نفل پڑھنا پھر دعائے استخارہ کرنا۔
صَلَاۃالتَّسْبِیْح : چاررکعت نفل جن میں تین سومرتبہ سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر پڑھا جاتا ہے ۔
نمازحاجت: کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتواس کی خاطرمخصوص طریقہ کے مطابق دویاچاررکعت نماز پڑھنا ۔
صَلاۃُ الْاَسْرَار (نمازغوثیہ) :غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول دورکعت نماز جومغرب کے بعدکسی حاجت کے لیے پڑھی جائے ۔
نمازتوبہ: توبہ واِسْتِغْفَارکی خاطرنوافل اداکرنا۔
صَلاۃُالرّغائِب : رجب کی پھلی شب جمعہ بعدنمازمغرب کے بارہ رکعت نفل مخصوص طریقے سے اداکرنا۔
سجدہ شکر: کسی نعمت کے ملنے پرسجدہ کرنا۔
حاجتِ اصلیہ : زندگی بسر کرنے میں آدمی کوجس چیزکی ضرورت ہووہ حاجت اصلیہ ہے مثلاًرہنے کامکان،خانہ داری کاسامان وغیرہ
سائمہ : وہ جانور ہے جوسال کے اکثرحصہ میں چَر کرگزاراکرتاہواوراس سے مقصود صرف دودھ اوربچے لینایافَربہ کرناہو
ثَمن: بائع اورمشتری آپس میں جوطے کریں اسے ثمن کہتے ہیں
قیمت: کسی چیز کی وہ حیثیت جوبازارکے نرخ کے مطابق ہواسے قیمت کہتے ہیں
وقف : کسی شے کو اپنی مِلک سے خارج کرکے خالص اللہ عزوجل کی مِلک کردینا اسطرح کہ اُس کانفع بند گانِ خدا میں سے جس کو چاہے ملتارہے۔
صاع : ایک صاع ، 4 کلو میں سے 160 گرام کم۔ اور آدھا صاع 2 کلو میں سے 80 گرام کم کا ہوتا ہے
رِطل : بیس اِستارکاہوتاہے۔
اِستار : ساڑھے چارمثقال کاہوتاہے۔
مِثْقال : ساڑھے چارماشہ کاوزن
ماشہ ۸: رتی کا وزن
رتی : آٹھ چاول کاوزن
تولہ : بارہ ماشے کاوزن
طلاق بائن : وہ طلاق جس کی وجہ سے عورت مردکے نکاح سے فوراًنکل جاتی ہے۔
خُلع : عورت سے کچھ مال لے کر اس کا نکاح زائل کردیناخلع کھلاتاہے
دَینِ قوی : وہ دین جسے عرف میں دستْ گَرْدَاں کہتے ہیں جیسے قرض ،مال تجارت کاثمن وغیرہ۔
دَینِ متوسط : وہ دین جوکسی مال غیرتجارتی کابدل ہو،مثلاًگھرکاغلہ یاکوئی اور شے حاجت اصلیہ کی بیچ ڈالی اور اس کے دام خریدار پرباقی ہیں ۔
دَینِ ضعیف : وہ دین جوغیرمال کابدل ہومثلاًبدلِ خلع وغیرہ۔
عاشِر : جسے بادشاہ اسلام نے راستہ پرمقررکردیاہوکہ تجارجواموال لے کرگزریں ،ان سے صدقات وصول کرے ۔
اجارہ : کسی شے کے نفع کا عوض کے مقابل کسی شخص کومالک کردینااجارہ ہے
اجارہ فاسد : اس سے مرادوہ عقد فاسد ہے جواپنی اصل کے لحاظ سے موافق شرع ہومگراس میں کوئی وصف ایساہوجس کی وجہ سے(عقد)نامشروع ہومثلاًمکان کرایہ پردینااورمرمت کی شرط مُسْتاجِر(اجرت پرلینے والے)کے لیے لگانایہ اجارہ فاسدہے۔
خیارِشرط : بائع اورمشتری کاعقد میں یہ شرط کرنا کہ اگرمنظور نہ ہوا توبیع باقی نہ رہے گی اسے خیارشرط کہتے ہیں
دَینِ مِیْعادی : ایسا قرض جس کے ادا کرنے کا وقت مقرر ہو۔
دَیْن مُعَجَّل : وہ قرض جس میں قرض دَہنْدہ (قرض دینے والے)کوہروقت مطالبے کااختیارہوتاہے۔
ایامِ مَنْہیَّہ: یعنی عیدالفطر،عیدالاضحی اورگیارہ ،بارہ ،تیرہ ذی الحجہ کے دن کہ ان میں روزہ رکھنامنع ہے اسی وجہ سے انھیں ایام منہیہ کہتے ہیں۔
ایام بِیْض: چاندکی۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کے دن۔
خِیارِرؤیت : مشتری کابائع سے کوئی چیز بغیردیکھے خریدنااوردیکھنے کے بعداس چیز کے پسندنہ آنے پربیع کے فَسْخ (ختم)کرنے کے اختیار کوخیاررؤیت کہتے ہیں۔
خیارِعیب: بائع کا مبیع کو عیب بیان کئے بغیر بیچنا یامشتری کا ثمن میں عیب بیان کیے بغیر چیز خریدنااور عیب پر مطلع ہونے کے بعداس چیز کے واپس کردینے کے اختیار کو خیار عیب کہتے ہیں۔
خراج مُقاسمہ : اس سے مرادیہ ہے کہ پیداوارکاکوئی آدھاحصہ یاتہائی یاچوتھائی وغیرہامقررہو۔
خراج مؤظّف : اس سے مرادیہ ہے کہ ایک مقدارمعیّن لازم کردی جائے خواہ روپے یاکچھ اورجیسے فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقررفرمایاتھا۔
ذمی : اس کافرکوکہتے ہیں جس کے جان ومال کی حفاظت کابادشاہ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذمہ لیاہو۔
مستامن : اس کافر کوکہتے ہیں جسے بادشاہ اسلام نے امان دی ہو۔
بیگھہ: زمین کا ایک حصہ یا ٹکڑا جس کی پیمائش عموما تین ہزار پچیس (۳۰۲۵)گز مربع ہوتی ہے،(اردو لغت،ج۲،ص۱۵۶۰) چارکنال ،۸۰ مرلے۔
جَرِیب: جریب کی مقدارانگریزی گزسے ۳۵ گز طول اور۳۵ گزعرض ہے۔
بیع وفا: اس طورپربیع کرناکہ جب بائع مشتری کوثمن واپس کرے تومشتری مبیع کوواپس کردے۔
فقیر : وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ ہومگرنہ اتناکہ نصاب کوپہنچ جائے یانصاب کی مقدار ہوتواس کی حاجت اصلیہ میں استعمال ہورہا ہو۔
مسکین: وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہویہاں تک کہ کھانے اوربدن چھپانے کے لیے اس کامحتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔
عامِل : وہ ہے جسے بادشاہ اسلام نے زکاۃ اورعُشروصول کرنے کے لیے مقررکیاہو۔
غارِم: اس سے مراد مدیون (مقروض)ہے یعنی اس پراتنادین ہوکہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔
اِبْن سَبِیْل: ایسا مسافر جس کے پاس مال نہ رہاہو اگرچہ اس کے گھرمیں مال موجودہو۔
مہرمعجل: وہ مہر جوخَلوت سے پہلے دیناقرارپائے۔
مہرمؤجّل: وہ مہرجس کے لیے کوئی میعاد (مدت)مقرر ہو۔
بنی ہاشم : ان سے مراد حضرت علی وجعفروعقیل اورحضرت عباس وحارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں۔
امّ وَلَد : وہ لونڈی جس کے ہاں بچہ پیداہوااورمولیٰ نے اقرار کیاکہ یہ میرابچہ ہے۔
صومِ داؤد علیہ السلام :اس سے مراد ایک دن روزہ رکھنااور ایک دن افطارکرناہے۔
صومِ سکوت: ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے۔
صومِ وِصال: روزہ رکھ کرافطارنہ کرنااوردوسرے دن پھرروزہ رکھنا(صوم وصال ہے)۔
صومِ دَہر : یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ (بہارشریعت ،حصہ۵،ص۱۰۱)
یَوْمُ الشّک: وہ دن جوانتیسویں شعبا ن سے متصل ہوتاہے اور چاندکے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ا س تاریخ کے معلوم ہونے میں شک ہوتاہے یعنی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تیس شعبان ہے یا یکم رمضان۔ اسی وجہ سے اسے یوم الشک کہتے ہیں۔
مَسْتُور : پوشیدہ،مخفی،وہ شخص جس کاظاہرحال مطابق شرع ہو مگر باطن کاحال معلوم نہ ہو۔
شہادۃ علی الشہادۃ: اس سے مرادیہ ہے کہ جس چیزکوگواہوں نے خودنہ دیکھابلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اوراپنی گواہی پرانھیں گواہ کیاانھوں نے اس گواہی کی گواہی دی۔
اکراہِ شرعی: اکراہ شرعی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کوصحیح دھمکی دے کہ اگر توفلاں کام نہ کریگاتومیں تجھے مار ڈالوں گا یا ہاتھ پاؤں توڑدوں گایاناک ،کان وغیرہ کوئی عضوکاٹ ڈالوں گایاسخت مارماروں گااوروہ یہ سمجھتاہوکہ یہ کہنے والاجوکچھ کہتاہے کرگزرے گا،تویہ اکراہ شرعی ہے۔
مسجد بیت : گھرمیں جوجگہ نمازکے لیے مقررکی جائے اسے مسجدبیت کہتے ہیں۔
ظِہار: اپنی زوجہ یااس کے کسی جزوشائع یاایسے جزوکوجوکُل سے تعبیرکیاجاتاہوایسی عورت سے تَشْبِیْہ دیناجواس پرہمیشہ کے لیے حرام ہویااس کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھناحرام ہو۔مثلاًکہا تومجھ پرمیری ماں کی مثل ہے یاتیراسریاتیری گردن یاتیرانصف میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے۔
اشہر حج: حج کے مہینے یعنی شوال المکرم وذوالقعدہ دو۲ نوں مکمل اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس۰ ۱ دن ۔
احرام: جب حج یا عمرہ یا دو۲ نوں کی نیت کرکے تلبیہ پڑھتے ہیں،تو بعض حلال چیز یں بھی حرام ہوجاتی ہیں اس لئے اس کو ”احرام ” کہتے ہیں ۔اور مجازاً ان بغیر سلی چادرو ں کو بھی احرام کہا جاتا ہے جن کو احرام کی حالت میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
تَلبِیہ: وہ وِرْد جو عمرہ اورحج کے دوران حالت احرام میں کیاجاتا ہے ۔ یعنی لَبَّیْک ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک الخ پڑھنا۔
اِضطِباع: احرام کی اوپر والی چادر کوسیدھی بغل سے نکال کر اس طرح الٹے کندھے پر ڈالنا کہ سیدھا کندھا کھلارہے ۔
رَمل: طواف کے ابتدائی تین۳ پھیرو ں میں اکڑ کر شانے ھلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے قدرے تیز ی سے چلنا ۔
طواف: خانہ کعبہ کے گر دسات۷ چکر یا پھیرے لگانا ایک چکر کو ”شو ط ” کہتے ہیں جمع ”اشواط۔”
مَطاف: جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے ۔
طوافِ قُدوم: مکہ معظمہ میں داخل ہونے پر پھلا طواف یہ ”افراد ” یا” قِران ”کی نیت سے حج کرنے والوں کے لئے سنتِ مؤکد ہ ہے۔
طوافِ زِیارۃ : اسے طواف افاضہ بھی کہتے ہیں ۔یہ حج کا رکن ہے ۔اس کا وقت ۱۰ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ۱۲ ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک ہے مگر دس۱۰ ذوالحجہ کو کرنا افضل ہے ۔
طوافِ وداع: حج کے بعد مکہ مکرمہ سے رخصت ہوتے ہوئے کیا جاتا ہے ۔ یہ ہر ”آفاقی ” حاجی پر واجب ہے ۔
طوافِ عمر ہ : یہ عمرہ کرنے والوں پر فر ض ہے ۔
اِستِلام : حجرِا سود کو بو سہ دینا یا ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر ہاتھ یا لکڑی کو چوم لینا یا ہاتھوں سے اس کی طر ف اشارہ کر کے انہیں چو م لینا ۔
سَعْی: ”صفا ”اور ”مروہ” کے مابین سات۷ پھیرے لگا نا (صفا سے مروہ تک ایک پھیر اہوتا ہے یو ں مروہ پر سات۷ چکر پورے ہوں گے ۔
رَمْی: جمرات (یعنی شیطانوں)پر کنکریاں مارنا ۔
حَلْق: احرام سے باہر ہونے کے لئے حدو د حرم ہی میں پورا سر منڈوانا۔
قَصْر: چوتھائی(ــــ۱۴ ) سر کا ہر بال کم از کم انگلی کے ایک پورے کے برابر کتروانا۔
مسجدُ الْحرام: وہ مسجد جس میں کعبہ مشرفہ واقع ہے ۔
بابُ السَّلام: مسجد الحرام کا وہ دروازہ مبارکہ جس سے پھلی بار داخل ہونا افضل ہے اور یہ جانب مشرق واقع ہے۔
کعبہ: اسے بیت اللہ عَزَّوَجَلَّ بھی کہتے ہیں یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا گھر یہ پوری دنیا کے وسط میں واقع ہے اور ساری دنیا کے لوگ اسی کی طر ف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں
رکنِ اَسْوَد: جنوب ومشرق کے کونے میں واقع ہے اسی میں جنتی پتھر ”حجراسود ”نصب ہے ۔
رکنِ عِراقی : یہ عراق کی سمت شمال مشرقی کو نہ ہے ۔
رکن شامی : یہ ملک شام کی سمت شمال مغربی کونہ ہے ۔
رکنِ یَمانی: یہ یمن کی جانب مغربی کو نہ ہے ۔
بابُ الکعبہ: رکن اسودا ور رکن عراقی کے بیچ کی مشرقی دیوار میں زمین سے کافی بلند سو نے کا دروازہ ہے
مُلْتَزَم: رکن اسوداور باب الکعبہ کی درمیانی دیوار ۔
مُسْتَجار: رکن یمانی او رشامی کے بیچ میں مغربی دیوار کا وہ حصہ جو ”ملتزم” کے مقابل یعنی عین پیچھے کی سیدھ میں واقع ہے۔
مُسْتَجاب: رکن یمانی اور رکن اسود کے بیچ کی جنوبی دیوار یہاں ستر۰ ۷ ہزار فرشتے دعاپر اٰمین کہنے کے لئے مقرر ہیں ۔ اسی لئے سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے اس مقام کانام ”مستجاب ”(یعنی دعا کی مقبولیت کا مقام )رکھا ہے ۔
حَطِیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل (یعنی باؤنڈری )کے اندر کا حصہ ”حطیم”کعبہ شریف ہی کاحصہ ہے اور اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہونا ہے
مِیْزاب رَحْمت: سونے کا پر نالہ یہ رکنِ عراقی وشامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے اس سے بارش کاپانی ”حطیم ”میں نچھا ور ہوتا ہے ۔
مَقامِ اِبراھیم: دروازہ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ جنتی پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کعبہ شریف کی عمارت تعمیر کی اور یہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زندہ معجزہ ہے کہ آج بھی اس مبارک پتھر پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدمین شریفین کے نقش موجود ہیں ۔
بِیرِزَم زَم: مکہ معظمہ کا وہ مقدس کنواں جو حضرت سیدنا اسماعیل علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے عالم طفولیت میں آپ کے ننھے ننھے مبارک قدموں کی رگڑ سے جاری ہوا تھا ۔ اس کا پانی دیکھنا ، پینا اور بدن پر ڈالنا ثواب اور بیماریوں کے لئے شفاہے۔ یہ مبارک کنواں مقام ابراہیم (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) سے جنوب میں واقع ہے ۔
بابُ الصَّفا: مسجد الحرام کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ۔جس کے نزدیک ”کوہ صفا ہے ”۔
کوہِ صَفا: کعبہ معظمہ کے جنوب میں واقع ہے اور یہیں سے سعی شرو ع ہوتی ہے۔
کوہ مَروہ: کوہ صفا کے سامنے واقع ہے ۔ صفا سے مروہ تک پہنچنے پر سعی کا ایک پھیر اختم ہوجاتا ہے او رسا۷ تواں پھیر ا یہیں مروہ پر ختم ہوتا ہے ۔
مِیْلَیْن اَخْضَرَیْن: یعنی دو۲ سبز نشان صفا سے جانب مروہ کچھ دور چلنے کے بعد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو۲ نوں طر ف کی دیواروں او رچھت میں سبز لائٹیں لگی ہوئی ہیں ۔ نیز ابتدا اور انتہا پر فر ش بھی سبز ماربل کا پٹا بنا ہوا ہے ۔ ان دو۲ نوں سبز نشانوں کے درمیان دوران سعی مردو ں کو دوڑنا ہوتا ہے ۔
مَسْعٰی: میلین اخضر ین کا درمیانی فاصلہ جہاں دوران سعی مرد کو دوڑنا سنت ہے ۔
مِیقات: اس جگہ کو کہتے ہیں کہ مکہ معظمہ جانے والے آفاقی کو بغیر احرام وہاں سے آگے جانا جاءز نہیں ، چاہے تجارت یا کسی بھی غر ض سے جاتاہو ۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کے رہنے والے بھی اگر میقات کی حدو د سے باہر (مثلاً طائف یا مدینہ منورہ)جائیں تو انہیں بھی اب بغیر احرام مکہ پاک آنا ناجاءز ہے ۔
ذُوالْحُلَیْفَہ: مدینہ شریف سے مکہ پا ک کی طرف تقریباً دس کلومیٹر پر ہے جو مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والوں کے لئے ”میقات ”ہے ۔ اب اس جگہ کانام”ابیار علی کرم اللہ وجہہ الکریم ”ہے
ذاتِ عِرق: عراق کی جانب سے آنے والوں کے لئے میقات ہے ۔
یَلَمْلَم: پاک وہندوالوں کے لئے میقات ہے ۔
جُحْفَہ: ملک شام کی طر ف سے آنے والوں کیلئے میقات ہے ۔
قَرْنُ الْمَنازِل: نجد (موجودہ ریاض)کی طرف آنے والوں کے لئے میقات ہے ۔ یہ جگہ طائف کے قریب ہے ۔
مِیقاتی: وہ شخص جو ”میقات” کی حدو د کے اندر رہتا ہو۔
آفاقی: وہ شخص جومیقات کی حدو د سے باہر رہتا ہو۔
تَنْعِیم: وہ جگہ جہاں سے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران عمرے کے لئے احرام باندھتے ہیں اور یہ مقام مسجد الحرام سے تقریباً سات 7 کلو میٹر جانب مدینہ منورہ ہے اب یہاں مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا بنی ہوئی ہے ۔ اس جگہ کو لوگ ”چھوٹاعمرہ” کہتے ہیں ۔
جعرانہ: مکہ مکرمہ سے تقریبا چھبیس۲۶ کلو میٹر دور طائف کے راستے پر واقع ہے ۔یہاں سے بھی دوران قیام مکہ شریف عمرہ کا احرام باندھا جاتا ہے ۔ اس مقام کو عوام ”بڑا عمرہ ”کہتے ہیں۔ 246 حَرَم : مکہ معظمہ کے چارو ں طر ف میلوں تک اس کی حدود ہیں اور یہ زمین حرمت وتقدس کی وجہ سے ”حرم”کھلاتی ہے۔ ہر جانب اس کی حدو د پرنشان لگے ہیں حرم کے جنگل کا شکار کرنا نیز خود رو درخت اور تر گھاس کا ٹنا ، حاجی ، غیر حاجی سب کے لئے حرام ہے۔ جو شخص حدو د حرم میں رہتا ہوا سے ”حَرمی”یا ”اھل حرم ”کہتے ہیں ۔
حِل: حدو د حرم سے باہر میقات تک کی زمین کو ”حِل ”کہتے ہیں ۔ اس جگہ وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم میں حرام ہیں ۔ جو شخص زمینِ حل کا رہنے والا ہو اسے ”حلّی ”کہتے ہیں ۔
مِنٰی: مسجد الحرام سے پا۵نچ کلو میٹر پروہ وادی جہا ں حاجی صاحبان قیام کرتے ہیں ”مِنٰی”حرم میں شامل ہے ۔
جَمَرات: منی میں تین۳ مقامات جہا ں کنکریاں ماری جاتی ہیں پہلے کا نام جمرۃُ العَقَبۃہے ۔ اسے بڑا شیطا ن بھی بولتے ہیں۔ دوسرے کو جمرۃ الوسطی (منجھلا شیطان) اور تیسرا کو جمرۃ الاُولی (چھوٹا شیطان) کہتے ہیں
عَرَفات: منیٰ سے تقریباًگیا۱۱رہ کلو میٹر دور میدان جہاں ۹ذوالحجہ کو تمام حاجی صاحبان جمع ہوتے ہیں ۔ عرفات حرم سے خارج ہے۔
جَبَلِ رَحمت : عرفات کا وہ مقدس پہاڑ جس کے قریب وقوف کرنا افضل ہے ۔
مُزْدَلِفَہ:” منیٰ”سے عرفات کی طرف تقریبا ًپا۵نچ کلو میٹر پر واقع میدا ن جہاں عرفات سے واپسی پررات بسر کرتے ہیں ۔سنت او رصبح صادق اور طلو ع آفتاب کے درمیان کم از کم ایک لمحہ وقوف واجب ہے
مُحَسِّر: مزدلفہ سے ملاہوا میدان ، یہیں اصحاب فیل پر عذاب نازل ہو ا تھا ۔لھذا یہاں سے گزرتے وقت تیزی سے گزرنا سنت ہے ۔
بطنِ عُرَنہ: عرفات کے قریب ایک جنگل جہاں حاجی کا وقوف درست نہیں ۔
مَدْعٰی: مسجد حرام او رمکہ مکرمہ کے قبر ستا ن ”جنت المعلی ” کے مابین جگہ جہاں دعا مانگنا مستحب ہے ۔
دَم: یعنی ایک بکرا (اس میں نر ، مادہ ، دنبہ ، بھیڑ ، نیز گائے یااونٹ کا ساتو اں حصہ سب شامل ہیں)۔
حجِ تَمتُّع : مکہ معظمہ میں پہنچ کراشہرالحج (یکم شوال سے دس ذی الحجہ )میں عمرہ کرکے وہیں سے حج کا احرام باندھے۔اسے تمتع کہتے ہیں اوراس حج کرنے والے کومُتمتّع کہتے ہیں۔
حجِ افراد: جس میں صرف حج کیاجاتاہے۔اسے حج افراد کہتے ہیں اوراس حج کرنے والے کومُفرِد کہتے ہیں۔
زادِراہ: توشہ اور سواری،اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ چیزیں اُس کی حاجت یعنی مکان و لباس اور خانہ داری کے سامان وغیرہ اور قرض سے اتنی زائدہوں کہ سواری پر جائے اور وہاں سے سواری پر واپس آئے اور جانے سے واپسی تک عیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے کافی مال چھوڑجائے ۔
جِنایت: اس سے مراد وہ فعل ہے جوحَرم یااِحْرام کی وجہ سے منع ہو۔جیسے احرام کی حالت میں شکارکرنا،حرم میں کسی جانورکوقتل کرنا۔
ذی الحلیفہ: مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے ،یہی اصح ہے
جَنَّتُ المَعْلٰی: جنت البقیع کے بعد مکہ مکرمہ میں جَنَّتُ المعلٰی دنیا کا سب سے افضل ترین قبرستان ہے یہاں ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور کئی صحابہ وتابعین رضی اللہ تعالی عنھم اور اولیاء وصالحین رحمہم اللہ تعالیٰ کے مزارات مقدسہ ہیں۔
وادی مُحصَّب: جَنَّتُ المعلٰی کہ مکہ معظمہ کا قبرستان ہے اس کے پاس ایک پہاڑ ہے اور دوسرا پہاڑ اس پہاڑ کے سامنے مکہ کو جاتے ہوئے داہنے ہاتھ پر نالہ کے پیٹ سے جداہے ان دونوں پہاڑوں کے بیچ کا نالہ وادی ئ محصب ہے
مَسْجدُ الْجِن: یہ مسجدجَنَّتُ المعلٰی کے قریب واقع ہے۔سرکارمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے نماز فجرمیں قرآن پاک کی تلاوت سن کریہاں جنات مسلمان ہوئے تھے۔
جَبلِ ثَور : یہ وہ مقدس پہاڑ ہے جس کے غارمیں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفیق خاص سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہجرت کے وقت تین رات قیام پذیر رہے۔یہ غار مبارک مکہ مکرمہ کی دائیں جانب مَسفلہ(ایک محلہ خانہ کعبہ کے حصہ دیوارمستجار کی جانب واقع ہے) کی طر ف کم وبیش چارکلومیٹر پرواقع ہے۔
جَبل اَبِیْ قُبَیْس: یہ مقدس پہاڑ بیت اللہ شریف کے بالکل سامنے کوہ صفا کے قریب واقع ہے ۔
بابُ الحَذُورَہ: مسجد الحرام میں ایک دروازے کا نام ہے۔
جَمْرہ: منیٰ اورمکہ کے بیچ میں تین ستون بنے ہوئے ہیں ان کوجَمْرہ کہتے ہیں ،پھلاجومنیٰ سے قریب ہے جمرہ اولی کھلاتاہے اوربیچ کاجمرہ وسطی اوراخیرکامکہ معظمہ سے قریب ہے جمرۃ العُقْبیٰ کھلاتاہے۔
مَشْعرِ حرام: مزدلفہ کے قریب ایک پہاڑکانام ہے جسے جبل قُزَح بھی کہتے ہیں
علم ہیأت: وہ علم جس میں چاند ،سورج ،ستاروں،سیاروں کے طلوع وغروب ،کیفیت ووضع ،سمت ومقام کے متعلق بحث کی جاتی ہے۔
علم تَوْقِیْت : وہ علم ہے جس کی مدد سے دنیاکے کسی بھی مقام کے لیے طلوع ،غروب،صبح اورعشاء وغیرہ کے اوقات معلوم کیے جاتے ہیں۔
بہارِ شریعت(مکتبۃ المدینۃ)
Hey people!!!!!
Good mood and good luck to everyone!!!!!