آجکل کی بیٹیوں کے لئے، بالخصوص شادیوں کے مسائل بہت بڑھتے جا رہے ہیں

کیا امیر، کیا کوئی متوسط مڈل کلاس

کم ہی لڑکیاں ہیں جو سسرال میں یا خاوند کے ساتھ ایک آئیڈیل یا بہتر آسودہ زندگی گزار رہی ہوں

یا تو ساس سسر نہیں جینے دیتے، غیر ضروری مداخلت کرتے ہیں
یا نندیں سر پر چڑھی رہتی ہیں

بہو کے بھی قصور ضرور ہوتے ہیں، لیکن زیادہ قصور وار، شوہر یا ساس سسر، یا نندیں وغیرہ ہوتی ہیں

گھر کا ماحول بگڑے تو سب سے زیادہ قصور وار نااہل بیٹا شوہر ہوتا ہے کیونکہ قرآن میں شوہر کو ہی سربراہِ خاندان بنایا گیا تو سربراہ صاحب نے کیوں سربراہی درست طریقہ سے نہ کی؟
کہ چیزیں اس کے کنٹرول میں ہی نہیں

دفتر و فیکٹری وغیرہ کا ماحول درست رکھنا، آفس کے باس کی ذمہ داری ہے، دفتری اہلکار آپس میں لڑیں تو باس نا اہل ہے،

ساس بہو و نندیں بھی آپس میں لڑیں تو مرد نااہل ہے

اس قابل نا تھا بیٹا کہ عائلی نظام پوری کنٹرول سے سنبھال سکے تو شادی کیوں کی

ماں کو بہنوں کو بھائی اتنا زیادہ پیارا ہے کہ انہوں نے اسے بیوی کے زیادہ قریب نہیں جانے دینا تو اس کی شادی ہی نہ کرتے بلکہ اپنی گود میں بٹھائے رکھتے، پلو سے چپکائے رکھتے لاڈو بیٹے کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہو، جو کہ ایک لڑکی ہے، ایک خاتون ہے، تو گھر کو بسانا اور خوش و خرم رکھنا، خدا نے اس کی فطرت میں رکھ دیا ہے
اور اس کا اصل گھر و فیملی و رعیت، صرف اس کا خاوند و بچے ہیں

وہ جیسی گناہ گار بھی ہو، گھر کو سنبھالنے ، مضبوط رکھنے میں اس کی 100 فیصد کوشش ضرور ہوتی ہے

لیکن پھر لڑائی جھگڑے اسے بھی ایک لڑاکو بنا دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ معاشرے ختم ہو گئے جب صرف مروت کی وجہ سے کوئی رشتہ نبھا دیا جائے، یا صبر اور برداشت کر کر زندگی گزار دی جائے

پاکستان کی ابھی کی بالکل نئی جنریشن کا صبر و مروت زیرو ہے، جو طلاقوں کی ریشو کو آنے والے سالوں میں بہت زیادہ بڑھا دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو کیا کیا جائے؟

اپنی بچیوں بیٹیوں بہنوں پر خصوصی توجہ دیں، ان کی تعلیم و ہنر پر کوئی کمی یا کمزوری نہ آنے دیں ، وہ ضرور اس قابل ہوں کہ اپنا معاش خود بھی کما سکیں

وہ وقت گزر گئے جب صرف کوئی چولہا ایکسپرٹ گھر چلا سکتی تھی

اور سارے گزارہ کر لیتے تھے

ابھی ہر چیز کی قیمت ہے، اور بچیوں کی قیمت ان کی تعلیم و ہنر ہے

جس کے پاس تعلیم و ہنر نہیں، مشکلات اس کی منتظر ہوں گی

کچی پکی انگلش، کچا پکا کمپیوٹر، کچی پکی روٹی، کچے پکے اخلاق و اطوار، کچا پکا دین

یہ کوئی تعلیم یا ہنر نہیں ہیں

تعلیم و ہنر صرف وہی ہے جو اس درجہ کا ہو کہ اسکا جادو سر چڑھ کر بولے، کہ پرفیکشین ہو

ورنہ ناقص و نامکمل تعلیم و ہنر کامل فائدہ نہ دے سکے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کامیاب شادی کے لئے خاتون کو بہت صبر سے اور مرد کو ہر معاملے میں بہت بیلنس سے چلنا ہوتا ہے

اگر عورت نے اپنا صبر کھو دیا اور مرد نے تمام چیزوں اور رشتوں میں بیلنس نہ رکھا، تو یا تو گھر ٹوٹ جائے گا، یا لڑائی جھگڑوں سے جہنم کا نظارہ پیش کرتا رہے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزار بلکہ لاکھ کوششوں کے باوجود، بھی لڑکی، اپنے سسرال خاوند سے سیٹ نہیں ہو پا رہی، تو کوئی حرج نہیں کہ وہ پھر طلاق لے اپنا رستہ الگ کر لے

کسی نے اس پر لازم نہیں کیا کہ اپنی دنیا کو اپنے اوپر جہنم بنوا جیتی رہے

(اور والدین بھی کھلے دل سے دوبارہ اسے اپنے گھر جگہ دیں)

لیکن یہ تب ہے کہ بعد طلاق، وہ بچی معاشی طور خود کو سنبھالنے کے بھی قابل ہو

والدین تو فوت ہو جانا ہے، بھائیوں نے سنبھالنا نہیں، تو کس کے سہارے طلاق لینی ہے؟

اگر کوئی معاش کا ذریعہ نہیں تو پھر اسی شوہر اور سسرال میں گزارہ کرتی رہے، اور تعلیم و ہنر نہ ہونے کی سزا بھگتے

کیونکہ ابھی شادی شدہ رہتے تو صرف اس کی روح زخمی ہو رہی ہے

اگر طلاق لے لے اور کوئی ذاتی معاش کی صلاحیت بھی نہ ہوئی تو معاشرہ آپ کی اور آپ کے بچوں کی روح بھی قتل کر دے گا

تو روح کے مقتول ہونے سے، مجروح رہنا بہتر ہو گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page