:حدیثِ قِرطاس و قلم

،نبی کریم ﷺ کے وصال شریف سے 4 دن پہلے جب  رسول اللہ ﷺکی بیماری شدت اختیار کرگئی آپ ﷺ نے  اپنے حجرہ مبارک میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ و اہل بیت  علیھم السلام کی موجودگی میں لکھنے کے لئے کوئی صفحہ ، ہڈی، یا  تختی دوات ،  طلب فرمائی کہ کچھ ایسی چیزیں لکھ دوں تاکہ تم بعد میں گمراہ نہ ہو جاؤ، موقع پر موجود کچھ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم نے عرض کی کہ اس شدت کی حالت میں آپ کا تحریر فرمانا ،   آپﷺ کی طبیعت پر گراں نہ ہوتو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس موقع پر عرض کی کہ ہمیں کتاب اللہ  کافی ہے اور کچھ دیگر صحابہ  رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا کہ صفحہ  دے دیا جائے، جب صحابہ آپس میں یہ تکرارکر رہے تھے تو آپ ﷺنے انہیں خاموش ہو جانے اور وہاں سے چلے جانے کو فرمایا  ،اور پھر  اسی موقع آپ ﷺ نے  تین باتوں کی وصیت فرمائی (1) مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا (2)سفیروں کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کرنا جیسے میں کرتا تھا۔اور  تیسری وصیت  بتانےسے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ  (جوکہ اس حدیث کے راوی ہیں)خاموش ہو گئے کہ وہ ان کو یاد نہ رہی، اور فرمایا کہ  تیسری بات میں بھول گیا(صحیح بخاری#7366، وغیرہ)

اس حدیث کو لے کر فتنہ گر بہت فتنہ مچاتے  اور  اس کی من گھڑت تشریحات کرتے ہیں،مثلا   یہ کہ نبی کریم ﷺ  نے اس روز  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بارے میں لکھنا تھا کہ میرے بعد حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ میرے خلیفہ بلا فصل  ہوں گے لیکن  آپ ﷺ کو یہ نہ لکھنے دیا گیا،اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپﷺ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے بارے میں لکھنے سے روک دیا، جو کہ سراسر باطل تشریح اورایک  بہتان  عظیم ہے۔

حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر ایسا الزام و بہتان  لگانے  والوں ، اور  اہل ایمان کے لئے  یہاں چند باتیں انتہائی  قابل غور ہیں تاکہ فتنہ گروں کی فتنہ گری سے کوئی اپنا ایمان نہ   خراب کر بیٹھے۔

نمبر 1

 قرآن میں اللہ فرماتا ہے  ہے: الیومَ اکملتُ لکم دینکم  کہ تمہارا دین آج میں نے مکمل  کر دیا،( قرآن کی یہ آیت حدیثِ قرطاس سے چند ایک مہینے پہلے نازل ہوئی،) کہ تمام دین مکمل ہو چکا  ، اسی طرح قرآن میں ہے کہ تِبیانا لکل شیءٍ کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن میں ہے کہ ما فرّطنا  فی الکتاب من شیءٍ، کہ ہم نے  قرآن میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔

نمبر 2

 رسول اللہ ﷺ نے شدت مرض میں وصال شریف  سے   4 دن پہلے جمعرات کے دن کاغذ و قلم  طلب فرمایا ،اس کے بعد پانچویں دن یعنی بروز سوموار آپﷺ کا وصال شریف  ہوا ،اگر یہ تحریر لکھنا اتنا ضروری ہوتا کہ کوئی حکمِ قطعی لکھنے کی ضرورت ہوتی تو اتنے وقفہ میں کسی بھی وقت  دوسرے موقع   پر بھی آپﷺ وہ تحریردوبارہ بھی  لکھوا  سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا۔اس موقع پر جب سب لوگ چلے بھی گئے تو بھی، بعد میں بھی آپ ﷺنے ایسی کوئی تحریر اپنے اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم  وغیرہ کو نہیں لکھوائی یا زبانی بھی نہیں  فرمائی۔کہ میرے بعد پہلے  خلیفہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہوں گے۔

نمبر 3

 جس موقع کا یہ واقعہ ہے ، اسی مجلس میں آپﷺ نے زبانی طور تین وصیتیں بھی فرمائیں ، اگر اعلانِ خلافتِ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی فرمانا ہوتا ، تو زبانی بھی فرمایا جا سکتا تھا کہ اس دور میں سارا قرآن و حدیث تھے بھی زبانی ہی۔

نمبر 4

 کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو حکم فرمایا ہو، وحی فرمائی ہو  کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پہلی  خلافت کا اعلان  فرما دیں اور آپ ﷺ وہ اعلان نہ فرمائیں؟  یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی نبی ، اپنے فریضہِ رسالت کو پورا ادا کئے بنا ہی اس دنیا سے تشریف لے جائے ؟ اور نبوت کے فریضہ کی  مکمل ادائیگی میں ناکام رہ جائے؟ العیاذ باللہ

قرآن میں ہے بلغ ما انزل الیک، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ، اے رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا اس کی تبلیغ فرما دیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اُس کا کوئی پیغام بھی نہ پہنچایا ۔

نمبر 5

 اگر  خلافتِ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پہلے نمبر پر ہونا ، خدا  او ررسول  ﷺ  کی منشا ہوتی،اوریہ  ایک دینی واجب  حکم ہوتا، تو کیا  قرآن کی کسی ایک  آیت  یا حدیث  میں یہ نہ  فرما دیا جاتا کہ   میرے بعد  خلیفہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہوں گے؟

نمبر 6

 کیا حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ خدا و رسول دونوں پر غالب آ گئے؟ کہ انہوں نے دین کی تکمیل کو روک دیا؟ اور ایک لاکھ سے زائد صحابہ نے  نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ  کو فوقیت دے دی؟ العیاذ باللہ

نمبر 7

 کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ یا اہل بیت اطہاررضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے بھی پوری زندگی  میں بھی ایسا فرمایا کہ پہلی خلافت تو حق ہی  صرف ہمارا تھا،اگر پہلے تین خلفاء کے ادوارمیں یہ  نہیں بھی فرمایا ، تو کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے چوتھے  دور خلافت میں ہی  ایسا کچھ بھی  فرمایا کہ میرا حق تو پہلا تھا لیکن خلیفہ  بنایا مجھے چوتھے نمبر پر گیا؟ ( لہذا یہ بعد میں آنے والوں کا  عقیدہِ بد ہے، ورنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی ایسا کوئی یہ عقیدہ نہ تھا)

نمبر 8

 اگر پہلی خلافت پر صرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورصرف  اہل بیت  رضی اللہ تعالی عنہم کا ہی حق ہوتا ،اور یہ خلافت قرآ ن و سنت کا  کوئی منصوص حکم ہوتا ،  تو کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ و تمام اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم خدا و رسول ﷺکے  عطا کردہ  اپنے  اس منصوص  حق سے دستبردار ہو جاتے یا ہو سکتے تھے ؟ اس طرح  بھی سمجھ  لیں کہ آخری نبی محمد ﷺ  ہی ہیں، تو کیا نبی کریم ﷺ کسی بھی صورت خدا کی عطا کردہ رسالت سے کبھی بھی دستبردار ہو سکتے تھے؟ کہ حالات نہیں صحیح،  تو نبوت  کسی اور کے سپرد کر دی جائے ،تقیہ کر لیاجائے،  یا چھوڑ دی جائے ، (العیاذ باللہ) اللہ معاف فرمائے

نمبر 9 

پہلی خلافت کا حکم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ و آئندہ کے لئے بھی  صرف اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم کے لئے آ جاتا تو قسم بخدا  دنیا کی کوئی طاقت ان سے یہ حق نہ چھین سکتی تھی، نہ ہی وہ یہ حق کسی کو دیتے یا دستبردار بھی ہوتے ، ایسے ہی جیسے کوئی کسی نبی سے اس کی نبوت نہیں چھین سکتا، لیکن نبوت الگ چیز ہے خلافت الگ، لہذا خلافت کو نبوت والا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔نبی معصوم ہیں اور ائمہ محفوظ۔

نمبر 10

 نبی کریم ﷺ کے وصال شریف کے بعد جب سقیفہ بنی ساعدہ  میں صحابہ نے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی، وہاں یہ تکرار تو ہوئی کہ خلیفہ مکہ  کے قریش میں سے ہو گا  یا مدینہ کے انصار میں سے، لیکن کسی نے بھی ایسا نہیں کہا کہ قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث کے مطابق خلافت تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حق ہے ، کیونکہ ایسا کچھ تھا ہی نہیں ، ورنہ نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ تمام صحابہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف ہی خلافت کے لئے رجوع کرتے

 اور نہ ہی کوئی مسلمان  یہ بد گمانی کر سکتا ہے کہ اس دور کے ہزاروں صحابہ  خدا و رسول ﷺکے خلاف ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف اکٹھے  ہو گئے کہ ان کو خلافت حاصل نہیں کرنے دی وغیرہ ( استغفر اللہ)

نمبر 11

 بالفرض ، بد مذہبوں کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ پہلی خلافت کا حق صرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور پھرخلافت صرف  اہل بیت کا ہی حق تھا ، اور پہلے تین خلفاء نے زبردستی خلافت ہتھیا لی، تو اس فرضی  صورت میں  جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  خود چوتھے خلیفہ بنے تو آپ نے اپنے سے  پچھلوں کی نفی کیوں نہ کی؟ یا آپ نے خدائی حکم کے تحت اپنے بعد اپنے بیٹے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا خلیفہ کیوں خود مقرر نہ کیا  کہ یہ تو خدائی حکم تھا ؟

 یاد رہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ مقرر نہ فرمایا تھا، بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد تمام مسلمانوں نے اپنے تئیں ، اپنے مشورہ سے متفقہ طور حضرت امام  حسن رضی اللہ تعالی عنہ  کو خلیفہ  راشدمقرر کیا تھا۔

یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی کسی کو بھی اپنا وصی نہ فرمایا، ایسے ہی جیسے نبی کریم ﷺ نے بھی کسی کو بھی اپنا وصی  نہ فرمایا

نمبر 12

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک مشابہت ہے، یہودی ان سے دشمنی رکھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان کی والدہ مطہرہ پر تہمت لگاتے ہیں جبکہ نصاریٰ ان سے محبت کرتے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے انہیں ایسے مقام پر فائز کر دیا جس کے وہ حق دار نہیں۔(یعنی خدا بنا دیا) “ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: دو قسم کے لوگ میرے حق کے متعلق ہلاک ہو جائیں گے، افراط سے کام لینے والا محبّ،اور وہ میرے متعلق ایسا افراط ،غلو کرے گا جو مجھ میں نہیں ہے، اور دشمنی رکھنے والا کہ میری دشمنی اسے اس پر آمادہ کرے گی کہ وہ مجھ پر بہتان لگائے گا (مسند احمد)

نمبر 13

 اگر خلافت صرف اہل بیت کا ہی  حق ہوتا، کہ اور کوئی دوسرا کبھی  خلیفہ نہیں بن سکتا  تو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کبھی بھی  خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو  سپرد کر  خود خلافت سے دستبردار نہ ہوتے۔ کہ یہ تو پھر خدا و رسول کی نافرمانی  ٹھہرتی کہ خدا کی تفویض کردہ خلافت کسی غیراہل کو سونپ دی۔(لہذا  ایسا کوئی عقیدہ باقی تمام  ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم میں بھی موجود نہ تھا)

نمبر 14

 کاغذ اور قلم لانا صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہی ذمہ داری تھی کیا؟جن کا گھر بھی نہیں تھا وہ، اور وہ تو وہاں مہمان کے طور گئے ہوئے تھے، وہاں مجلس میں اور بھی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اور اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم موجود تھے، کوئی بھی جا کر لا سکتا تھا، ٹارگٹ صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو کیوں کر کیا جا سکتا ہے،  نہ ہی کوئی  اور بھی قلم کاغذ لایا، نہ ہی کسی کے قلم کاغذ لانے پر کسی نے رکاوٹ ڈالی،( لیکن بد مذہب  صرف  شیطانی پراپیگنڈا  کو  ایسا  مواد چاہتے ہیں، لہذا اس حدیث سے جو شیطانی پیروکار مبالغہ آمیزانہ مفہوم اخذ کرتے ہیں وہ بالکل باطل و لغو ہے، )

نمبر 15

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ و  سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے داماد بھی تھے، اگر مسئلہ ایسا سنگین ہی ہوتا جیسا بد مذہب  اب پیش کرتے ہیں تو کم از کم حضرت  علی رضی اللہ تعالی عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا ساس سسر  ہونے کا تعلق نہ رکھتے، ان کو اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا رشتہ  نہ دیتے ۔  یا یہ رشتہ  توڑ دیتے

نمبر 16

 اہل سنت محدثین نے ہی اس حدیث مبارکہ کو  اپنی کتب احادیث میں لکھا، اگر تو اس کا مطلب و مفہوم وہی نکلتا ہے جو کہ بد مذہب حضرات نکالتے ہیں تو اہل سنت محدثین اس حدیث پر کلام ضرور کرتے یا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف ویسا بیان کر دیتے جیسا بد مذہب کرتے ہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ کوئی بھی  کتاب ِحدیث، فضائل حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے خالی نہیں۔

نمبر 17

 پہلے خلیفہ ،  بغیر کسی بھی اختلاف کے، اور پوری امت کے اجماع کے ساتھ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ ہی تھے، نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی آپ نے 17 نمازوں کی جماعت کروائی، نبی کریم ﷺ بھی جماعت میں شریک ہوئے، اور اپنے وصال شریف کے آخری دن بھی آپ نے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ  کونماز کی جماعت کی امامت  کرواتے ملاحظہ فرمایا۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی تمام نمازیں پہلے 3  خلفاء کے پیچھے ہی ادا فرمائیں اور پہلے تینوں خلفاء کی بیعت بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمائی۔ اب کوئی بد مذہب یہ  کہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلے تین خلفاء سے اچھا حسن سلوک، پیار محبت و تمام تعاون کسی خوف یا ڈر  یا دھمکی  وغیرہ  یا تقیہ کی وجہ سے تھا تو یہ بھی شیر خدا ، اسد اللہ، سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ایک بہتان ہے۔اور ان کی شان میں گستاخی اور بے ادبی و بے دینی ہے

نمبر 18

 اگر اس موقع آپ ﷺ  خلافت کے متعلق تحریر فرما بھی دیتے تو دوسری احادیث مبارکہ کی روشنی میں وہ تحریر حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ہی ہوتی، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ا پنےآخری مرض کے دوران میں مجھ سے فرمایا؛اپنے والد ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا: میں زیادہ حقدار ہوں جبکہ اللہ بھی ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی اور کی جانشینی سے انکار فرماتا ہے اور مومن بھی۔ (صحیح مسلم #2387)

نمبر 19

اور اسی موضوع پر  مسند احمدحدیث نمبر #10978میں بھی ہے: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ جس روز رسول اللہ ﷺ کی بیماری کا آغاز ہوا، آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اورفرمایا:  تم اپنے والد اور بھائی کو میرے پاس بلواؤ۔ میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے ڈر ہے کہ کوئی دوسرا کہنے والا کہے یا تمنا کرنے والا تمنا کرے کہ میں ( خلافتِ نبوت) کا زیادہ حق دار ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی دوسرے پر راضی نہیں ہوں گے۔ (مسند احمدحدیث نمبر #10978)

نمبر 20

صحیح بخاری # 4447 میں ہے: رسول اللہ ﷺ کے مرض وصال کا واقعہ ہے ، سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ نے سیّدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا: اللہ کی قسم!مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم ﷺاس مرض سے جانبرنہیں ہو سکیں گے،مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہو تے ہیں،ہمیں آپ ﷺکے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے ، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، سیّدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:اللہ کی قسم!اب اگر پوچھا اور نبی کریم ﷺ نے انکار کر دیا تولوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تونہیں پوچھوں گا۔

نمبر 21

اسی طرح  صحیح بخاری میں ہی ہے: حضرت ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا  کہ کیا آپ کے پاس کو ئی خاص تحریر ہے ؟ فرمایا ، نہیں ، صرف کتاب اللہ کا فہم اور یہ صحیفہ ہے ۔ میں نے پوچھا: اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا:دیت ، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

نمبر 22

مسند احمد میں   ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم ﷺ کی طرف سے صفحہ مانگنے پر عرض کی کہ  ، مجھے زبانی فرما دیں ، بعد میں خود لکھ لوں گا۔جس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ نماز پڑھتے رہنا ، غلاموں کا خیال رکھنا

نمبر 23

 جب حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ ، از راہ محبت و عقیدت  یہ عرض پیش کی ، کہ شدت مرض میں  آپ ﷺ پر کچھ گراں نہ گزرے ، تو نبی کریم ﷺ نے آپ کی عرض قبول فرما لی، ورنہ آپ ﷺ کی مرضی و منشا کے خلاف  کوئی کیسے آپ ﷺ کے  کسی ایک فرمان کو بھی  رکوا سکتا تھا۔

نمبر 24

 موافقات حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، (کہ آپ کے مشورہ  اور رائےپر شریعت کے احکامات بھی نازل ہوئے،) بہت سے ہیں۔ جن میں سے ایک صحیح مسلم میں ہے کہ  ایک مرتبہ  نبی کریم ﷺ نے اپنے نعلین شریف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیئے اور فرمایا ” اے ابوہریرہ ! جاؤ اور ان  نعلین کو اپنے ساتھ لے جاو (تاکہ لوگ جان لیں کہ تم میرے پاس سے آئے ہو) اور اعلان کر دو  کہ  جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد سے یہ گواہی دیتا ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس کو جنت کی خوشخبری دے دو” (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺکے اس پیغام کو لے کر میں باہر نکلا تو) سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا ابوہریرہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ جوتیاں رسول اللہ ﷺ کی ہیں آپ نے مجھے یہ جوتیاں (نشانی کے طور پر) دے کر اس لئے بھیجا ہے کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو میں اس کو جنت کی خوشخبری دے دوں (یہ سنتے ہی) عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کے سینے  پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ وہ سرین کے بل نیچے گر پڑےاور پھر انہوں نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جاؤ واپس جاؤ۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس لوٹ آئےاور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اورحضرت  عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی  پیچھے پیچھے آپہنچے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے (یہ حالت دیکھ کر) فرمایا۔” ابوہریرہ! کیا ہوا!” انہوں عرض کیا یا رسول اللہ !میں آپ ﷺ کا پیغام لے کر باہر نکلا تو سب سے پہلے میری ملاقات عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی۔ میں نے آپ ﷺ کا وہ پیغام ان تک پہنچایا (انہوں نے اس کو سنتے ہی) میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سیرین کے بل زمین پر آپڑا اور پھر انہوں نے کہا کہ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے بوچھا ” عمر تم نے ایسا کیوں کیا؟” انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان، کیا واقعی آپ ﷺ نے ابوہریرہ کو اپنی جوتیاں دے کر اس لئے بھیجا تھا کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو یہ جنت کی خوشخبری دے دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں! عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسا نہ کیجئے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں اسی خوشخبری پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (اور عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) اس لئے آپ ﷺ انہیں ( زیادہ سے زیادہ) عمل میں لگا رہنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا (اگر تمہارا یہی مشورہ ہے) تو پھر لوگوں کو عمل میں لگا رہنے دو۔(صحیح مسلم)

نمبر 25

اہل  ِبیت  اطہار (خاندانِ رسول ﷺ)سے محبت رکھنا ایمان کا حصہ ہے، کتب ِ احادیث اہل سنت میں فضائل  میں  سب سے زیادہ احادیث  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں  ہی  ہیں۔جو کہ احادیث کی تمام کتب میں موجود و مشہور ہیں ۔ لیکن پوری اجماع امت  کے ساتھ  آپ چوتھے خلیفہ راشد بر حق تھے، جن کے بارے نبی کریم ﷺ یہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں مولا، اس کا علی مولا(حدیث متواتر)

نمبر 26 

ایسے ہی   جیسے دو صحابہ کی لڑائی کی وجہ سے  شب قدر کا اعلان نہ ہو سکا، بس اتنا فرما دیا گیا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اسے تلاش کرو، تمام معاملات میں اللہ کی کوئی مشیت و حکمت ہوتی ہے۔ امت  کے بارے نبی کریم ﷺ کی یہ دعا قبول نہ فرمائی گئی ،اور  یہ دعا کرنے سے منع فرما دیا گیا کہ میری  امت آپس میں جھگڑا وقتل و غارت نہ کرے۔ لہذا یہ آ زمائش ،جھگڑے ہونے ہی ہیں۔صحیح مسلم# 7258  آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں گے، اور دشمن ان پرغالب نہ آئے گا لیکن یہ ایک دوسرے کو قتل کریں قیدی بنائیں گے جس وجہ سے دشمن ان پر غالب آ جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You cannot copy content of this page